ڈاکٹر عا فیہ صدیقی کس کی بیٹی ہے؟

 

سمیع اللہ ملک

 

 

ہما ری قومی بے حسی اور چشم پوشی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے ۔و قت کی پکار صدا بصحرا ثابت ہو رہی ہے۔کاش یہ صدا کسی گنبد میں دی گئی ہوتی ‘کم از کم واپس تو لوٹتی ۔جہاں میں پوری قوت سے قوم کی مظلوم بیٹی کو عافیہ نام لیکر پکارتا کہ تم کہاں ہو؟تو سوال کا جواب نہ ملتا ‘سوال تو واپس آتا ۔ آئیے حساب لگا کر دیکھیں کہ جس روز قوم کی اس مظلوم بیٹی کو جو اپنے دو معصوم العمر اور ایک گود میں لپٹے بچوں کے ساتھ تھی ‘ہما ری خفیہ ایجنسیوں کے مستعد اور سائے کی طرح پیچھا کر تے بے رحم ہاکس نے پوری درندگی اور سفاکی سے اغوا کیا تو ان دنوں کون کون مسند اقتدار پر متکمن تھا ۔٢٣ جون ٢٠٠٣ء کے بد نصیب دن پرویز مشرف صدر’ظفراللہ جمالی وزیر اعظم’ فیصل صالح حیات وزیر داخلہ’خورشید محمود قصوری وزیر خارجہ تھے اور سید ضمیر جعفری کے فرزند ارجمند جنرل احتشام ضمیر ایک اہم ترین قومی ایجنسی کے سربراہ تھے۔ان تمام اعلیٰ عہدیداروں کے علم کے بغیر ایک پتہ بھی جنبش نہیں کر سکتا تھا ۔ظفر اللہ جمالی صاحب اس تا ریخ سے مزید ایک برس ٢٦ جون٢٠٠٤ء تک اپنے عہدہ جلیلہ پر فائز رہے۔
گزشتہ چارسال سے جمہوری اورعوامی حکومت کادعویٰ کرنے والے صدرآصف علی زرداری ،وزیراعظم یوسف رضاگیلانی،حناربانی کھر وزیر خارجہ اوروزیرداخلہ رحمان ملک یہ سب افرادبھی اس حقائق سے انکار نہیں کر سکتے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور اس کے بچوں٧سالہ احمد ‘٥سالہ مریم اورچندماہ کا سلمان کے اغوأ حبس بیجا’اور امریکیوں سے قیمت کی سودے با زی اور حوالگی میں ملوث خفیہ ایجنسیوں کے کار پردازوں اور ایوان اقتدار کے حاکموں میں ہو نے وا لی ان کا روائیوں سے مکمل طور لا علم ہیں۔شرم کامقام تو یہ ہے کہ اس مظلوم اور بے گناہ خاتون کی وہ دردناک چیخیں جس نے بگرام ایئر بیس کے درو دیوار تک ہلا کر رکھ دئیے ، ان کی اذیت ناک ابتدأ تو اسلام آباد سے ہوئی ہو گی۔وہ یہاں کسی کو سنائی کیوں نہیں دیں ؟وہ تمام خفیہ ایجنسیاں جنہوں نے عزت وطن کا یہ معرکہ سر کیا ‘براہ راست وزیر اعظم کو جوابدہ تھیں اور اگر وزیر اعظم’ وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ کے اختیارات کی حدود آگ کے اس دریا کے پار نہیں جا سکتی تھی تو بھی ان کو کسی حد تک اعتماد میں ضرور لیا ہو گا۔
فاسق کمانڈوکی رخصتی کے بعدنئی جمہوری حکومت کے دور میں عافیہ کو افغانستان سے امریکالیجایاگیااورعوامی حکومت کادعویٰ کرنے والی حکومت کوتوفیق نہ ہوسکی کہ عافیہ کی بازیابی کامطالبہ کرتی ۔اس سنگین واردات کا بقدر علم ہو نے کے با وجود ان کے دلوں میں ایک بیٹی سے فطری محبت کا کوئی گداز پیدا نہیں ہوا؟ذہنوں میں کوئی تلاطم اور دلوں میں کوئی درد پیدا نہیں ہوا؟کیا ان کے دست و پا’ قلب و بصارت اور نطق سماعت پر مکمل طور پر قفل پڑ گئے ہیںکہ جمہوری حکومت کے چار برسوں میں کسی ایک موقع کی منا سبت سے کبھی ایک بار بھی اس راز کو منکشف نہ کر سکے؟حالانکہ ریمنڈڈیوس کی گرفتاری کے موقع پرعافیہ کی رہائی کاایک بہترین موقع تھالیکن غلاموں کوہمت نہ ہوسکی کہ اپنے آقاؤں سے ایسی گزارش ہی کرسکتے۔اس پرامریکاکی عدالت میں اس طرح مقدمہ چلایاگیاکہ تمام زمینی حقائق اوررپورٹس چیخ چیخ کرعافیہ کی مظلومیت کی دہائی دے رہی تھی لیکن امریکاکی عدالت نے حا لات کی بے رحم زنجیروں میں جکڑی کمزور،نحیف اورمظلوم عافیہ کو عدم ثبوت کے باوجود٨٧سال کی قیدسنادی۔
ڈاکٹر عا فیہ صدیقی صرف عصمت صدیقی کی ہی بیٹی تو نہیں’وہ تو اپنی ماں کے نام کی رعایت لفظی سے پا کستان کی عصمت کی بیٹی ہے ۔بیٹیاں’جو سب کی ایک جیسی ہوتی ہیں’گڑیوں سے کھیلتی ہوئی’تتلیوں کے پیچھے بھاگتی ہوئی ‘باپ کے پیروں کی آہٹ پر لہراتے با لوںسے دوڑتی ہوئی’اس کے سینے سے لگ کر دل میںا پنی بے لوث محبت اور اطاعت کی لا زوال قندیلیں روشن کرتی ہوئی ‘اپنی ننھی سی عمر میںہی دلہن سی لگتی ہوئی ‘اور ہما رے ایمان کے حوالے سے والدین کے گھروں میں رسالت مآبۖکی مہمان کی حیثیت رکھتی ہوئی ، لیکن آج پابندِسلاسل ہونے کے باوجوداسے جنسی زیادتی کانشانہ بنادیا گیااوروہ کینسرکے موذی مرض میں مبتلازندگی کے آخری سانس لے رہی ہے۔صدحیف کہ علمائے دین بھی اس واقعے پرمنہ میں خودغرضی کی گھنگھنیاں ڈالے بے حسی کاشکارہیں اورصد مبارک اورتحسین کے لائق ہیں ہماری وہ مجبور و بیکس کشمیری دختران ملت جنہوں نے اپنی ملی غیرت کامظاہرہ کرتے ہوئے سڑکوں پر آ کر اپنا احتجاج ریکارڈکروایا۔
ساری پا کستانی قوم اب بجا طور پر مطا لبہ کرتی ہے کہ مستعفی پرویز مشرف کے محاسبے کی فرد جرائم میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی زندگی تباہ کر نے کا جرم’ پا کستان کی بیٹی کی عزت و توقیر پا مال کر نے کا جرم اور غیر ملکی درندوں کے ہاتھوں بیچنے کا جرم سر فہرست رکھا جائے’اور عدالت عظمیٰ میں ان تمام اہلکاروں پر مقدمات قائم کئے جا ئیںجنہوں نے اپنے اعلیٰ افسران کے احکامات کی تعمیل میں ڈاکٹر عا فیہ صدیقی کو دن دیہاڑے کراچی میں گلشن اقبال سے اپنے سفر پر جا تے ہوئے اغوأ کیا،اسلام آباد کے کسی انٹیروگیشن سنٹر کے عقوبت خا نے میں پہنچایااور افغانستان کے بگرام ایئر بیس میں قائم امریکی جیل میں منتقل کر نے کے گناہ عظیم میں برابر کے شریک رہے ہیں۔مملکت پا کستان کا خواب دیکھنے والا علا مہ اقبال بھی اپنی قبر میں تڑپ ا ٹھا ہوگا کہ اس کے نا م سے منسوب گلشن سے اس کے دل کے پھول کے اس بے دردی سے ٹکڑے کر دئیے گئے۔
یہ کیسی قومی غیرت ہے ‘ہما ری متعدد این جی اوز’حقوق انسا نی کے علمبردار ‘غیر ملکی قیدیوں کے غمگسار کہاں سو ئے ہوئے ہیں ؟شاید ڈاکٹر عا فیہ صدیقی کیلئے کوئی آوازاٹھا نے’کوئی احتجا جی تحریک اور ریلی نکالنے میں کسی اقتصادی فائدے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی ہو گی۔وہ توہمسایہ ملک کے جا سوسوںاور دہشت گردوں کو سزائے موت کے باوجود رہا کر وانے کیلئے اپنی تمام صلا حیتیں صرف کر کے واپسی کا محفوظ انتظام کرتے ہیں ‘جو ہمیں جواب میں لا شوں کے تحا ئف دیتے ہیں۔ ہم امریکی قیدیوں کو اپنی جیلوں میں وی آئی پی سہو لتیںدیتے ہیں ۔ برطا نوی شہریت کے حامل قاتل کی سزائے موت معاف کرکے نہائت احترام سے واپس برطانیہ بھجواتے ہیں اور مہذب قوم ہونے پر اصرار کرتے ہیں۔اگر ایشین ہیومن رائٹس کمیشن’ امریکی قیدی معظم بیگ کی کتاب کی اشاعت اور ایوان رڈلی درست طور پر تصدیق نہ کرتے تو شاید ہمیں خبر تک نہ ہوتی اور معا ملہ موجودہ صورت اختیار نہ کرتااورعافیہ کانام و نشان تک مٹادیاگیاہوتا۔اسی تشہیر کے نتیجے میں مظلوم اور بے بس ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ا مریکہ منتقل کیا گیا جس پر حد درجہ واہیات اور مضحکہ خیز الزامات کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا ۔
صرف اس تصور سے کلیجہ منہ کو آتا ہے اور آنکھیں فرط غم سے خون کا دریا بن گئی ہیں کہ ا پنے خلاف ہونے والی غلیظ سا زش سے بے خبر’عفت مآب خاتون اپنے تین معصوم العمر بچوں سمیت درندہ نما انسانوں کے حوا لے کر دی گئی۔اس نے اپنے ہم وطن اغوأ کا روں کو غیرت وطن کا احساس تو دلایا ہو گا ‘با ربارا پنا جرم تو پو چھا ہو گا’ا پنی بے گنا ہی کی قسمیں بھی توکھائیں ہونگی’ ا پنی عزت و نا موس کا واسطہ بھی دیا ہو گا’ایک خوفزدہ ‘سہمی ہو ئی نا زک سی عا فیہ نے ا پنے لبا س اور بدن پر لپٹی حیا کی چادر نوچنے پر دہشت زدگی میں فریاد تو کی ہو گی۔وہ خونخوار ‘ بے مہر آنکھوں کی تاب نہ لا کر چلّائی تو ہو گی ‘ اس نے ا شک بھری آنکھوں سے بہن’بیٹی ہونے کا واسطہ بھی دیا ہو گا۔کیا اس وقت کی آمریت اورآج کی جمہوریت کے الاؤ میں پگھلے ہو ئے سیسے نے سب کی سما عتیں سلب کر لی ہیں؟کسی کی بصارت میں اپنی بیٹی’ ا پنی جوان بہن کا عکس نہیں ابھراکہ ان میں کوئی عا فیہ صدیقی کی جگہ ہو تی تو ان کے جگر چھلنی نہ ہو تے؟ دل خون نہ ہو تا؟کیا وہ اس کی جگر پاش چیخیں برداشت کر لیتے ؟
عقوبت خا نے کی تا ریک را توں میں تنہا ئی کا عذاب اور نت نئی اذیتوں نے کیسے اس کی جسمانی توانائیاں کشید کی ہوں گی؟ان کا حساب ہے کسی کے پاس؟اور پھر جب اسے اپنے جگر گوشوںکے بغیر اسلام آبادکی کر بلا سے پا بجولاں یزیدی دمشق جیسے بگرام ایئر بیس پر زینب بنت علی کی سنت ادا کر تے ہوئے منتقل کیا جا رہا تھا اور اس کی آہیں سسکیوں میں اور سسکیاں چیخوں میں تبدیل ہو رہی تھیںتو کسی کے ضمیر نے ملا مت نہیں کی؟کسی کی آنکھ سے ندامت کا کوئی آنسو نہیں گرا؟خوف اور دہشت سے ایک نازک سی عورت کے لرزتے ہوئے جسم کی حالت کسی دل میں کوئی گدازپیدا نہ کر سکی ؟ کیا انسان ایسا سنگدل بھی ہو سکتا ہے؟سنا ہے کہ یوسف رضاگیلانی اورپرویز مشرف کے والد گرا می اپنے نام کے ساتھ سیّدبھی لکھتے تھے ۔ وزیراعظم سیدیوسف رضاگیلانی اور مشرف یوم آخرت کو سیّد الانبیاء کا سامنا کیسے کریں گے جب ڈاکٹر عافیہ صدیقی سیّد الانبیاء کے سا ئے میں بیٹھی اپنے تمام مظالم کا ذمہ دار ان کو ٹھہرا دے گی؟کبھی ایسا بھی سوچا ہے کہ ایسا سوچنے کی مہلت بھی چھین لی گئی ہے؟ چنگیر اور ہلا کو کے مظالم ہوں یا کربلا کی ظلمتیں’تا ریخ نویس اس خوف کا بجا طور پر اظہار کرتے ہیں کہ شاید آئندہ آنے والی نسلیں ان کو دروغ گو کہیں گی۔لیکن جا معہ حفضہ کی معصوم طا لبات پر ڈھائے جا نے وا لے مظالم اور عافیہ صدیقی کو پیش آنے وا لے شرمناک اور کرب انگیز حالات قرون وسطیٰ کی تاریخ کی تصدیق کر تے ہیں۔
آج جب وطن کے ہر با ضمیر انسان کی آنکھیں ظلم کی اس داستان پر اشکبار ہیں ‘اس شرمناک داستان کا ورق ورق ذرائع ابلاغ میں بکھرا پڑا ہے۔اس درجہ کی عملی بازگشت جس کا یہ مطالبہ کرتی ہے ‘اقتدار کے ایوانوں سے بر آمد نہیں ہو رہی۔کیا وہ تمام مضا مین’کالم’ادارئیے اور اخباری بیانات کوئی جذباتی افسانہ طرازی ہے جو اہل قلم ہما ری آگا ہی کیلئے سپرد قلم کر رہے ہیں ! یقین کیجئے یہ ملک کی تاریخ کا ایک شرمناک باب مرتب ہورہا ہے اور اس کو مرتب کر نے والے قابل ستائش و احترام ہیں’جن کی تحریروں نے اہل وطن کی رگوں میں حمیت کا خون دوڑآیا ہے ۔قا بل مبارکباد ہیں دخترانِ ملت اوربہت سے اہل قلم ‘جن کے مضا مین عالم اسلام کو خواب غفلت سے جگانے کی کوشش کررہے ہیں۔کاش سفارتی ذرائع سے بڑھ کر حکو متی سطح پر اس اہم ترین مسئلے کو اقوام متحدہ کے توسط سے اٹھایا جائے اور جلد از جلد ڈاکٹر عا فیہ صدیقی کو پنجہ فرعون سے رہا کروایا جائے۔
رب العزت !گزشتہ نو برسوں سے وحشت و درندگی کا شکار ڈاکٹر عا فیہ صدیقی کیلئے غیب کے بہترین اسباب پیدا فر ما اور اس کو بے رحم اغیار کے پنجہ استبدادسے نجات دلا۔بیشک میرا رب علیم و خبیر ہی دشمنوں کی ہر چال کو نا کام بنا نے پر قادر ہے۔ثم آمین
بروزجمعرات ٩ ربیع الاوّل١٤٣٣ھ٢فروری٢٠١٢ئ
لندن

Comments are closed.

(will not be published)