نواز شریف اور ایل این جی اسکینڈل

20110509

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

نواز شریف اور ایل این جی اسکینڈل

by Masood Anwar

http://www.masoodanwar.com
anwar.masood@yahoo.com
مسعود انور

نواز شریف حکومت کو ابھی برسراقتدار آئے پورے سو دن بھی نہیں ہوئے ہیں کہ ان کی حکومت کے مالی اسکینڈل آنے شروع ہوگئے ہیں ۔ اس میں سب سے اوپر قطر سے ایل این جی کی درامد ہے۔ اب تک ایل این جی کی ڈیل کے جتنے بھی پہلو بھی سامنے آئے ہیں وہ اتنے خوفناک ہیں کہ اس کے آگے اب تک پاکستان میں ہونے والے سارے اسکینڈل ہیچ نظر آتے ہیں۔ بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ بقیہ تمام اسکینڈل کے بھی وہ مجموعی اثرات ملک پر مرتب نہیں ہوں گے جو ایک اکیلا ایل این جی اسکینڈل اس ملک کے ساتھ کرے گا۔

کہا گیا کہ پاکستان میں گیس کے ذخائربس اب تب میں ختم ہوئے چاہتے ہیں اور ملک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے فوری طور پر اس کی درامد کرنا پڑے گی۔(یہ سب حکومت کے کارپردازوں کا کہنا ہے اور ہمارے پاس ایک بھی آزاد ذریعہ نہیں ہے جس سے اس کی تصدیق کی جاسکے)۔ پھر کہا گیا کہ ہمارے پاس بہترین آپشن صرف اور صرف قطر ہے کیوں کہ وہاں سے شپمنٹ محض ایک دن میں کراچی پہنچ سکتی ہے اس لئے قطر سے گیس کی درامد کی جائے گی۔ دیکھنے میں سب کچھ بالکل صاف شفاف نظر آرہا ہے مگر ایسا بالکل نہیں ہے۔ ایک نیوز ویب سائیٹ مڈوے ٹائمز ڈاٹ کام کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں پیش کئے گئے حقائق کو دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کو مستقل طور پر گروی رکھنے کا سامان کرلیا گیا ہے۔ سب سے پہلی حقیقت تو یہی ہے کہ یہ ڈیل قطر کی حکومت کے ساتھ نہیں کی جارہی بلکہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی کونوکو فلپس کے ساتھ طے کی جارہی ہے۔ دوسری بڑی بات یہ کہ پاکستان میں بھی اس کو ایک اور ملٹی نیشنل کمپنی اینگروہینڈل کرے گی۔ اس طرح یہ دو ملٹی نیشنل کمپنیاں کاروبار کریں گی جس کی قیمت پاکستانی عوام ادا کرے گی۔ مڈوے ٹائمز ڈاٹ کام کی رپورٹ کے مطابق حکومت پاکستان نے یومیہ پانچ سو ملین کیوبک فیٹ گیس خریدنے کا بیس برس تک کا معاہدہ کیا ہے۔ اب پاکستانی حکومت یہ گیس لے یا نہ لے ، اس کو اس کی ادائیگی جو تقریبا پچاس لاکھ ڈالر روزانہ ہے وہ کرنی پڑے گی۔ اس معاہدہ کی رو سے حکومت پاکستان یہ گیس کسی دوسرے ملک کو فروخت نہیں کرسکے گی اور اس کی قیمت پندرہ ڈالر فی ملین بی ٹی یو بتائی جارہی ہے جو پاکستان میں سوئی سدرن گیس کے نظام میں داخل ہونے کے بعد چوبیس ڈالر فی ملین بی ٹی یو تک پڑے گی۔

اگر پاکستان قطر سے یہ گیس ان ہی شرائط پر درامد کرنا شروع کردیتا ہے تو پاکستان میں گیس کے نرخ سہ گنا تک بڑھ جائیں گے۔ اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بجلی کہاں پہنچے گی اور دیگر اشیاء کی پیداواری لاگت کہاں پر ۔ اس کے بعد پاکستان کی برامدی صنعت میں برامدات کے لئے کتنا دم خم باقی رہ جائے گا۔ یہاں تک تو پھر بھی اس مسئلے کی ہولناکی سامنے نہیں آتی۔ بات سیدھی سی لگتی ہے کہ گیس ختم ہوگئی تو اب کیا کیا جاسکتا ہے۔

اس میگا اسکینڈل کی ہولناکی یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس قیمت میں بیس سال تک کوئی ردوبدل نہیں کیا جاسکے گا۔ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ اس پورے کھیل میں پاکستانی سیاستدانوں اور دیگر کھلاڑیوں کو تقریبا چار سو ارب روپے کا کمیشن ملے گا۔

اس سے بھی بڑھ کر ایک اور انکشاف کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ابھی حال میں ہی سندھ میں سانگھڑ کے مقام پر قدرتی گیس کے وافر ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر پاکستان میں سندھ میں کھیر تھر کے پہاڑی سلسلے میں شیلے یا ٹائٹ گیس کے ذخائر وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ شیلے یا ٹائٹ گیس کا کیمیائی فارمولا قدرتی گیس سے ذرا ہی مختلف ہوتا ہے مگر اس کا کام اور استعمال قدرتی گیس جیسا ہی ہوتا ہے۔ امریکا ، کینیڈا ور چین یہ ذخائر نہ صرف نکال رہے ہیں بلکہ ملکی ترقی کے لئے بھرپور استعمال بھی کررہے ہیں۔ مڈوے ٹائمز کی رپورٹ میں ایک امریکی رپورٹ کا حوالہ دیا گیا ہے جس کے مطابق یہ ذخائر پاکستان میں کینیڈا سے بھی زیادہ ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر پاکستان میں گیس کی موجودہ کھپت کو آئندہ بیس سال میں تین گنا بھی بڑھا لیا جائے تو بھی یہ ذخائر آئندہ بیس برس تک ملک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی ہیں۔ اس عرصہ میں ٹیکنالوجی میں بہت ترقی ہوچکی ہوگی اور ان ہی کنووٴں سے مزید گیس بھی نکالنا ممکن ہوگی۔اس وقت سجاول میں ایسے ہی ایک کنوئیں سے سوئی سدرن گیس یہی ٹائٹ یا شیلے گیس حاصل کررہی ہے اور چھ ڈالر فی ملین ایم بی ٹی یو کی ادائیگی کررہی ہے۔ ذرا تقابل تو کیجئے، کہاں چھ ڈالر اور کہاں چوبیس ڈالر۔

اب پوری صورتحال کو ایک مرتبہ پھر دیکھئے ۔ پاکستان ایک ایسا معاہدہ کرنے کے قریب ہے جس میں پاکستانی عوام بیس سال تک ایک ملٹی نیشنل کمپنی کو پچاس لاکھ یومیہ ادا کریں گے۔ جی ہاں آپ گیس خریدیں یا نہ خریدیں ، پچاس لاکھ ڈالر یومیہ ادا کرنے کے پابند ہیں۔ اس ڈیل کے نتیجے میں پاکستانی برامدی صنعت مکمل طور پر ختم ہوجائے گی اور ہم صرف پھل اور چاول بیچ کر ہی ملک میں زرمبادلہ لاسکیں گے۔ بجلی و گیس تین گنا مہنگی ہوجائے گی، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ملک میں مہنگائی کا سونامی، پورے ملک کو اپنے لپیٹ میں لے کر وہ تباہی مچائے گا کہ سب کچھ ختم ہوجائے گا۔

اس پورے کھیل کے روح و رواں ہیں ہیں فنانس منسٹر اسحق ڈار اور پٹرولیم منسٹر شاہد خاقان عباسی۔ ان دونوں وزراء کی اپنی ایک تاریخ ہے ۔ شاہد خاقان عباسی پی آئی اے کے سربراہ بھی رہے ہیں اور آج پی آئی اے جس حال میں ہے ، یہ ان ہی کا کمال ہے۔ اسی طرح اسحٰق ڈار کا اپنا ایک ماضی ہے۔ اس پر گفتگو آئندہ کالم میں انشاء اللہ تعالیٰ۔اس ڈیل پر نہ تو کوئی سیاسی پارٹی شور مچارہی ہے اور نہ ہی کوئی سول سوسائٹی۔ اتنے اہم ایشو پر نہ تو سپریم کورٹ نے کوئی سوموٹو لیا ہے اور نہ ہی کسی نے عدالت سے رجوع کیا ہے۔ نہ کوئی دھرنا دے رہا ہے اور نہ ہی حکومت کے خلاف مہم چلانے کا ارادہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کچھ تو معاملات ایسے ہیں جہاں پر سب کے پر جلتے ہیں۔ جان لیجئے کہ ان تیل کمپنیوں کے مالکان، بینکار، اسٹیل ملز کے مالکان، دواوٴں کی کمپنیوں کے مالکان کون ہیں ۔ یہی تو بین الاقوامی سازش کار ہیں جو پوری دنیا میں جنگوں کا بازار گرم رکھتے ہیں اور ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں میں مصروف ہیں۔اور پاکستان میں ان کے ایجنٹوں کا کمال تو دیکھئے ، نہ کوئی شور نہ غوغا۔ نہ کوئی مخالفت اور نہ ہی کوئی احتجاج۔

اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہئے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھئے۔ ہشیار باش۔

, , , ,

Comments are closed.

(will not be published)