مرغیوں اورانڈوں کا کاروبار

 

 

 

مرغیوں اورانڈوں کا کاروبار

 

  انہوں نے 12اکتوبر 1999ء کے اقدام کے بعد پیچھے مڑکر دیکھا  

توکوئی نظر نہ آیا؟

 جو لندن میں مجھے اور میرے دوست ارشد شریف کو گھنٹوں یہ سمجھانے میں صرف کیاکرتے تھے کہ ہم پاکستانی عوام کو بتادیں کہ وہ بدل گئے ہیں،اب نیا پاکستان تعمیرکریں گے اور ان سیاسی چمچوں کی نئے سیاسی نظام میں کوئی جگہ نہیں ہوگی جنہوں نے مشرف کے ساتھ ہاتھ بھی ملایاہو۔

لیکن کیا ہوا؟

پاکستان لوٹ کر،اقتدار میں آتے ہی سب سے پہلے مشرف کابینہ کے رکن زاہد حامدکو وزیرقانون بنادیا۔

اُس وزیرخزانہ کی کیاعزت ہوگی جو کہتا ہوکہ اس نے اپنے بیٹے کوچوالیس کروڑ روپے کا قرضہ حسنہ دیا تاکہ سرکارکوکچھ نہ دینا پڑے۔

کیااُس سپیکر قومی اسمبلی کو بھی عزت کرانے کی خواہش کرنی چاہیے جس نے وزیرخزانہ کی طرح لاکھوں روپے اپنے بیٹے کو قرض دے رکھاہواور سب جانتے ہوں کہ الیکشن کمشن کے گوشواروں میں یہ قرضے کیوںدکھائے گئے ہیں؟ 

حکمران کیسے یہ مطالبہ کر سکتے ہیں کہ عوام ان کی عزت کریں جب دودھ دہی سے لے کر مرغی انڈے تک کا ریٹ وہ خودطے کرتے ہوں اور ان کے مقابلے میں کاروبار کرنے والے اداروں کے ملازمین کو پولیس مار پیٹ کراٹھا لے اوردودھ کا کارخانہ بندکردیاجائے۔

کون سا کاروبار ہے جو سیاستدان اوران کے بچے نہیں کر رہے اور عوام براہ راست متاثر نہیں ہورہے؟

جب سے مرغیوں اورانڈوں کا کاروبار سیاستدانوں کے ہاتھ میں آیاہے،قیمتیں کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہیں۔دودھ ایک سو پانچ روپے فی کلو ہوگیااس لیے کہ یہ کاروبار سیاستدانوں کے بچے کرتے ہیں۔

 

سیاستدانوں کی شوگر ملوں سے ایک سال میں 42 ارب روپے کی مہنگی چینی خریدی گئی۔انہوں نے چینی اس وقت مہنگی کی جب عالمی مارکیٹ میں اس کی قمیتیں کم ہورہی تھیں۔

 

 ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (ٹی سی پی) 

کاایک ہی کام رہ گیا ہے کہ وہ ان کی شوگر ملوں سے دھڑا دھڑ چینی خریدے،حکومت کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ زائد چینی سمندر میں پھینک دی جائے یا افسراس کی بوریاں گھر لے جائیں۔

 

ٹی سی پی بینکوں سے اربوں روپے کا کمرشل قرضہ لے کرچینی خریدتی ہے،اس طرح شوگر ملیں بینکوں سے قرضہ لینے اور سوداداکرنے سے بچ جاتی ہیں۔ چینی ان کے گوداموں میں پڑی رہتی ہے اوروہ ٹی سی پی سے اربوں روپے لے کرکاروبارکرتے ہیں۔

 

اگر پاکستان مہنگی چینی پیدا کرتا ہے تو پھرعام آدمی کی جیب سے اربوں روپے لے کراس پر سبسڈی کیوں دی جاتی ہے؟اگر میں مہنگے غبارے بناکر بیچنے کی کوشش کروں اور نہ بکیں توکیا ٹی سی پی انہیں چینی کی طرح خریدے گی؟

 

 اسحاق ڈار نے آتے ہی شوگر مل مالکان کو پچاس کروڑ روپے کی سبسڈی دی اورمزید دینے کا پروگرام ہے۔

 

اس پرآئی ایم ایف بھی کچھ نہیں کہتی، عوام کو سبسڈی ملے تواس کے پیٹ میں مروڑاٹھتے ہیں۔

 

ایل پی جی کی قیمتیں بڑھیں تو بھی جنرل، سیاستدان اوربابو فائدے میں رہتے ہیں۔ پٹرول کی قیمت بڑھ جائے توان سب کا کمیشن بڑھ جاتا ہے۔

 

سی این جی کا ریٹ اوپر جائے تو بھی انہی کا فائدہ کہ ان سب کے پٹرول اورگیس پمپ ہیں۔یہ ایئرلائن چلاتے ہیں، اسٹاک مارکیٹ میں انہوں نے پیسہ لگایا ہواہے۔ چینی، آٹے،کپاس اور ٹیکسٹائل کی ملیں،آئی پی پیز، میڈیکل کالجزکے علاوہ مرغی، انڈے اور دودھ۔۔۔ کون ساکاروبار ہے جو یہ لوگ نہیں کرتے اورستم یہ کہ اس پر حکومت سے مراعات بھی حاصل کرتے ہیں۔

ہم صحافیوں پرکاروبار کرنے کی پابندی ہے،لیکن سیاستدانوں پرکوئی پابندی نہیں۔ سیاستدانوں کو ماہانہ تنخواہ، الائونسز، گاڑیوں اور رہائش سے لے کرمفت فضائی سفر کی سہولتیں دستیاب ہیں ۔ وزراء کو فون،گیس اور بجلی کے بل بھی معاف ہیں۔حادثے میں انتقال کی صورت میں ان کے ورثاکولاکھوں روپے ملتے ہیں۔

 

 سیاست کے زور پر کاروبار کے لیے اربوں روپے کے قرضے لیتے اورپھرمعاف کرالیے جاتے ہیں۔

 

سیاسی اثراستعمال کرکے اپنے ضلعے میں مرضی کاڈی سی او اور ڈی پی او لگوا کر زمینوں پرقبضے کرتے ہیں،مخالفوں کو تھانوں میں پٹواتے ہیں، یوں مقامی سطح پراپنی طاقت اور خوف کی دھاک بٹھاتے ہیں۔عوام کو لوٹتے ہیں،ان کے ٹیکسوں سے مراعات حاصل کرتے ہیں اوران کی خدمت کے دعوے بھی کرتے ہیں۔

 

اگر یہ شوگر ملیں سیاستدانوں اورحکمرانوں کی نہ ہوتیں توکیایہ ایک سال میں اربوں روپے کی سبسڈی لے کر 42 ارب روپے کی چینی ٹی سی پی کو زبردستی فروخت کر سکتی تھیں؟

 

ادھربیوروکریٹ بھی لیڈروں کو دیکھ کر لوٹ مار میں شریک ہوگئے ہیں ۔ پرویز رشید کی وزارت اطلاعات کا سکینڈل دیکھ لیں۔ ایف ایم چینلز نے ایک سال میں 27 کروڑ روپے کا بزنس کیا تو سب کی رال ٹپکنے لگی ۔انفارمیشن گروپ کی ڈی جی ریڈیو پاکستان نے سوچا کہ اس ادارے کی مارکیٹنگ کا ٹھیکہ کسی پارٹی کوکیوں دیا جائے؟ایک نجی کمپنی 25 نومبرکو رجسٹرکرائی اورصرف گیارہ دن بعد 6 دسمبرکو اسے کروڑوں روپے کی ڈیل دے دی گئی،کر لوجو کرنا ہے! پرویز رشیدصاحب کے پاس وقت نہیں کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح کیس کی سمری کی بجائے پوری فائل پڑھ لیں اور پتاچلائیں کہ ان کی وزارت میں کیا کھیل کھیلا جارہا ہے اورکون راتوں رات کروڑ پتی بن رہا ہے۔ 

ہمارے قائد فرماتے ہیں کہ جنرل مشرف پرغداری کا مقدمہ چلنا چاہیے۔ میں پہلے دن سے اس کے حق میں ہوں لیکن

 

اُن سب پرمقدمہ کیوں نہیں چلنا چاہیے جنہوں نے نوازشریف کووزیراعظم ہائوس سے گرفتارکرکے ہتھکڑیاں لگادی تھیں؟ ان پرمقدمہ کیوں نہیں چلنا چاہیے جنہوں نے باوردی مشرف کو پارلیمنٹ میں ووٹ ڈالا تھا؟اورانہیں کیوں بخش دیا جائے جو جنرل مشرف کے بھی وزیر تھے اور آج نواز شریف کے بھی وزیر ہیں؟ ان سب نے پہلے آٹھ سال مشرف کے ساتھ مزے اڑائے اوراب میاں صاحب کے ساتھ مزے کر رہے ہیں۔یہ ہر موقعے پرسچے اور اچھے ہیں، جب چاہیں ڈکٹیٹرکے ساتھ مل کر ملک کو تباہ کریں اور جب جی چاہے جمہوریت پسندی کا لبادہ اوڑھ کرنیک پروین بن جائیں۔

 

پھرمیاں نواز شریف گلہ کرتے ہیں کہ جب وہ قدم بڑھاتے ہیں اورمڑکر پیچھے دیکھتے ہیں تو کوئی نظر نہیں آتا؟

 

 

عزت تلاش کرنے سے نہیں، کمانے سے ملتی ہے !اپنے بیوی بچوں سمیت اندھا دھند مال کمانے اور عزت کمانے میں بڑا فرق ہے۔ جس دن یہ فرق ہمارے حکمرانوں کی سمجھ میں آگیا مشرف کا ٹرائل کرنا آسان ہوجائے گا !
رؤف کلاسرا

 
 

 

 

 

 

 We apologize for the web conversion of this document-Ed

 

Comments are closed.

(will not be published)