Our Announcements

Not Found

Sorry, but you are looking for something that isn't here.

Posts Tagged “Lawyers”

Lawyers Protest Qadri Hanging

 

LETTER TO EDITOR

February 29th, 2016

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

Lawyers Protest Qadri Hanging

 

The Bar Council and other lawyers are observing strike and black day to protest against the hanging of Mumtaz Qadri – the murderer of late Governor Salman Taseer. Does it not look strange that the very entity whose sole purpose is to ensure justice to a victim is protesting against the hanging of a murderer?  It is also sad to see at times some of the black coats totting guns in the courts premises, locking up the court rooms – at times even with the judges inside, scuffle and brawl with the police and resorting to other unlawful acts!  If the providers of the law start taking the law in their own hands then where would one find the justice and the principled and respectable judicial system in Pakistan?!

 

  “choon kufr barkhezad ze Ka’ba – kuja manad musalmani”

 

Col. Riaz Jafri (Retd) 

Col. Riaz Jafri (Retd)
30 Westridge 1
Rawalpindi 46000
Pakistan
E.mail: [email protected]

, ,

No Comments

1سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر

 

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
جی ہاں یہی قیمت لگائی جا رہی ہے وکلاءتحریک کی سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر 1- میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سپریم کورٹ کے وکلاءکو اسلام آباد میں ایک ایک کن
 
 
 
ال کے پلاٹوں کی تقسیم کی درخواستوں پر ”مفاد عامہ“ میں غور فرما رہے ہیں۔ ان کی سربراہی میں قائم عدالت عظمیٰ کا سہہ رکنی بنچ سپریم کورٹ بار کوآپریٹو ہا¶سنگ سوسائٹی کی اسلام آباد کے زون 1 میں زمین حاصل کرنے کی درخواست پر سی ڈی اے اور وفاقی حکومت کے نمائندوں کو کئی دنوں سے طلب کر رہا ہے۔وکلاءکی اس نجی تنظیم کو شاہراہ دستور کے قریب عوام کے پیسے سے ایک ہاسٹل بھی بنا کر دیا جا رہا ہے جس پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے نام کی تختی بھی لگی ہے۔ چیف جسٹس نے اس ہاسٹل کے لئے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی اعلان کردہ 14 کروڑ روپے میں سے 5 کروڑ روپے کی ادائیگی میں تاخیر پر سخت نوٹس بھی لیا ہے۔ راجہ پرویز اشرف کے اربوں روپے کے منصوبوں اور ان کے ترقی اور تبادلوں کے آخری دنوںکے احکامات کو غیر آئینی قرار دیا گیا۔ اب کالے کوٹ والے اپنی ہی عدالت لگا کر آئین‘ قانون اور مفاد عامہ کے نام پر راجہ پرویز اشرف کی ہاسٹل کے لئے اعلان کردہ رقوم کے حصول کےلئے موجودہ حکومت پر دبا¶ ڈال رہے ہیں؟ سپریم کورٹ بار پہلے ہی 40 کروڑ روپے سے زائد عوامی خزانے سے اس ہاسٹل پر خرچ کر چکی ہے۔
بجلی‘ گیس‘ پٹرولیم کی قیمتوں سے متعلق سماعتوں میں تو غریب اور بھوک سے عاجز عوام اور عیاش سیاستدانوں کا ذکر خوب ہوتا ہے۔ تو کیا بھوکے ننگے عوام کی جیب سے کروڑوں روپے نکال کر شاہراہ دستور پر نجی ہاسٹل کی تعمیر عیاشی نہیں؟جس آئین‘ قانون اور ضابطہ اخلاق کی بالادستی کے لئے وکلاءتحریک چلائی گئی‘ ان کیسوں کی سماعت میں ان تمام اقدار کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے وکلاءکے ہاسٹل کی تعمیر میں شروع سے ذاتی دلچسپی لے رکھی ہے۔ وکلاءکی درخواست پر انہوں نے سپریم کورٹ کے ایک معزز جج کو ہاسٹل کی تعمیراتی کمیٹی کا رکن بھی مقررکیا ہے اور دوسری طرف اپنے ہاتھ سے نامکمل ہاسٹل میں اپنے نام کی تختی بھی لگائی جس کے لئے تقریبات بھی ہوئیں اور آج بروز سوموار بھی چیف جسٹس صاحب پہلے اس ہاسٹل کی تعمیر کے لئے فنڈز کے اجراءکے کیس کی سماعت کریں گے اور پھر اسی ہاسٹل کے افتتاح کے لئے ایک اور تختی کی نقاب کشائی بھی کرنے جائیں گے۔ کیا اس معاملہ میں عدلیہ کے ضابطہ¿ اخلاق کو یاد نہیں کیاجاسکتا۔
سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور دوسرے سیاستدانوں پر اقتدار کے آخری دنوں میں عوامی پیسہ لٹانے کا الزام اپنی جگہ مگر کیا چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے اس سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ارکان کو ایک ایک کنال کے پلاٹ کا مالک بناکرچھوڑنا چاہتے ہیں جس نے انہیں کندھے پر بٹھا کر چیف جسٹس کی مسند پر لا بٹھایا تھاکیا سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کے دوسرے بڑے مقدمات ختم ہو چکے ہیں؟ کیا سی ڈی اے کے زون ون میں وکلاءکے لئے ایک ایک کنال کے پلاٹ (جو تقریباً 60 لاکھ میں الاٹ ہوں گے اور شاید کروڑوں میں فوری طور پر بک جائیں گے)مفاد عامہ میں ہیں؟ کیا اس کے بعد وکلاءاپنی خدمات عوام کو مفت یا رعایتی نرخوں پر فراہم کریں گے؟ اور کیا ان درخواستوں کا فیصلہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے پہلے ہونا لازمی ہے؟
کمرہ عدالت میں ایک عجیب منظر دیکھنے کو ملتا ہے جہاں وکلاءاور ان کے نمائندوں کی بڑی تعداد کے علاوہ وفادار میڈیا بھی موجود ہوتا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پلاٹ مانگنے والوں کی طرف سے بھی وکیل پیش ہیں جنہیں پلاٹ ملنا ہے اور سی ڈی اے کی طرف سے بظاہر مخالفت کرنے والے بھی وکیل ہیں جو کیس ہار کر پلاٹ کے حقدار ٹھہریں گے ۔ ہر کوئی بڑی جلدی میں لگتا ہے۔ دوسری طرف سی ڈی اے کے وکیل افنان کنڈی صاحب بھی بظاہر ایک ”ولن“ کا مخالفانہ ڈائیلاگ ادا کر کے اپنی ذمہ داری پوری کر رہے ہیں ایک ایسی فلم میں جس کا انجام کافی واضح ہو رہا ہے۔انکی دلیل واضح ہے کہ سی ڈی اے کے قوانین کے تحت ایک نجی کوآپریٹو سوسائٹی کو زون ون میں زمین نہیں دی جاسکتی۔ اس صورت حال میں وفاقی ملازمین کی ہا¶سنگ فا¶نڈیشن بھی وکلاءکے کاندھے پر بندوق رکھے گھات لگائے بیٹھی ہیں۔ اس فا¶نڈیشن کو زون ون میں سکیموں کی اجازت نہیں ملی اور یوں اب ان کے لئے ایک سنہری موقعہ ہے۔ زون ون میں نجی سکیموں کو اجازت دینے کے لئے سمری وزیراعظم کے پاس ہے۔ سپریم کورٹ بار بار ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور سی ڈی اے کے افسروں کو کمرہ عدالت میں بلا کر کھڑا کر دیتی ہے اور خود کوئی حکم پاس کرنے کی بجائے بظاہر حکومت سے فیصلہ کروانے کی حکمت عملی اپنا رہی ہے۔ چاہے زیر تعمیر ہاسٹل کے لئے فنڈز کے چیک کا معاملہ ہو یا وکلاءکی رہائشی سکیم کا اس معاملے پر تقریباً روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرنا اور پھر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا یہ کہنا کہ سمری وزیراعظم کو بھیج دی گئی۔ ایک واضح اشارہ ہے کہ مسئلہ قوانین کا نہیں بلکہ وزیراعظم نواز شریف کے ایک دستخط کا ہے۔
جلد بازی نہ کرنے کی بہت سی اخلاقی اور اصولی وجوہات ہیں۔ 31 اکتوبر کو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات ہو رہے ہیں۔ سپریم کورٹ بار میں چیف جسٹس کے حامی اور مخالفت گروپوں کی سیاست کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ جو بھی ان انتخابات میں جیتے گا وہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی الوداعی تقریب منعقد کرانے (یا نہ کرانے) کا مجاز ہو گا۔ ہاسٹل کی حکومتی فنڈنگ اور اسلام آباد میں وکیلوں کے لئے ایک ایک کنال کے پلاٹ کو عدالتی فیصلے سے یقینی بنایا جائے گا تو بار ایسوسی ایشن کے انتخابات میں تنظیم کی موجودہ باڈی اور چیف جسٹس کا حامی گروپ یقیناً اس چیز کا فائدہ اٹھا سکتا ہے مگر ہاسٹل اور رہائشی سکیم کی مخالفت نہ کرنا چیف جسٹس کے مخالف وکلاءگروپ کی بھی سیاسی مجبوری ہے ۔وکلاءکی طرف سے حکومت اور عدلیہ پر دبا¶ کوئی نئی بات نہیں۔ حال ہی میں اسلام آباد کی ضلعی عدالتوں کو وکلاءکی طرف سے تالا لگا کر کئی بار بندکیا گیا۔ وکلاءنے کچہری کے قریب ہی سی ڈی اے کی ایک فٹ بال گرا¶نڈ پر قبضہ کر کے غیر قانونی چیمبروں کی تعمیر شروع کر دی ہے۔ سپریم کورٹ کے علم میں ہونے کے باوجود فٹ بال گرا¶نڈ کے قابضین وکلاءکے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور سی ڈی اے اور حکومت ویسے ہی وکلاءسے ڈرتی ہیں۔
آخر کالے کوٹ اور کالی شیروانی میں فرق ہی کیا رہ گیا ہے؟ اس ملک میں جس کا دا¶ لگا اس نے لگا دیا۔ کبھی عوام کے نام پر کبھی انصاف کے نام پر۔ ہمیں ڈکشنری میں موجود لفظ شرمناک کو اس سے نکالنا پڑے گا۔

, ,

No Comments

Playing with fire

 

 Sunday, 21 Apr 2013
 
 

Humayun Gauhar
 
Humayun Gauhar 
 
 

Playing with fire

images-19 

 

Justice should be done but only under due process, with balance and equity

“The avaricious are complainants and judges too. Who to appoint counsel, whom to seek justice from?” asked our great poet Faiz Ahmed Faiz at another time, when he too was incarcerated for ‘treason’.

Banay hain ahle hawas muda’ee bhi munsif bhi

Kissay vakil keratin, kis say munsafi chahain?

Good that Faiz Sahib wasn’t also imprisoned for terrorism. Though those too were bad times but not as bad as today. Then Pakistanis had hope; today they are hopeless. Our systems are hurtling towards their natural metamorphosis. Better this way than by force for then they become martyrs and return as zombies to haunt us.

Last week Gen Musharraf appeared before a high court for placing certain judges under house arrest, which is a bailable offence. But the judge attached a terrorism charge to it, denied him bail and ordered police to arrest him. Many lawyers say that he cannot and it was another case of overstepping. Once denied bail it is up to the interior ministry to order police to arrest the accused. The police did not. Musharraf is hardly going to go looking for the police to arrest him.

Since the police didn’t arrest Musharraf, he went home. His security whisked him away because the anti-Musharraf lawyers there were in such a black mood that they feared they might attack him. It is security’s job not to be too careful and take things for granted. But a clearly partisan media that Musharraf the ‘dictator’ made independent of the state but not of the Big Business-Big Politics Combine started the ridiculous rumour that he had scampered. A paper we know well, otherwise fairly balanced called him a ‘runaway’ general. Why would Musharraf voluntarily return to face the music only to scamper? Why without getting the US-UK combine to get cases against him withdrawn or the Saudis to get him a pardon and whisk him away to one of those carbuncles they call ‘palaces’? He came knowing the knives were naked, the cases against him alive and the terrorists ready. The next day this same paper’s headline screamed: “The general submits to justice.” Musharraf returned voluntarily and embraced justice. I find it comical that he has been placed on the Exit Control List whereas he should have been placed on the Entry Control List and saved our powers a lot of confusion.

It was also comical that while Gen Musharraf was in the anti-terrorism court the real terrorists dressed like Dracula were beating up a boy outside. Probably he was pro-Musharraf. It is certainly everyone’s democratic right to protest peacefully but not to cause mayhem. This is what our flag bearers of democracy and liberalism are: if you agree with them you are good; if not they will throttle you. And they resent it when you call them ‘liberal fascists’. The classic definition of fascism is the use of the most progressive rhetoric to further the most retrogressive ends. If they were true democrats and liberals they would not take oaths under provisional constitutional orders to protect their jobs, join unelected cabinets and seek offices of any kind.

Perhaps our hapless powers didn’t seriously expect Musharraf to return and so were not prepared for it. There is no precedent for them to follow, no template to adopt. Caught in utter confusion they are thrashing around like beached whales, unwittingly putting Musharraf’s life at greater risk by dragging him around from home to court to some police establishment to an anti-terrorism court. No one is saying that real justice shouldn’t take its course; of course it must but only under due process with balance and equity. They have no right to present the general on a platter to terrorists and potential killers. If, God forbid, anything happens to Musharraf his blood will be on their hands. With police brandishing fearsome weapons milling around him in the name of security, do they know that there is not another assassin amongst them, like Salman Taseer’s police ‘bodyguard’ shot him in the back like a coward?

This coldblooded, self-confessed assassin has many supporters amongst the ‘lawyers’ who showered flower petals on him and still lionize him. Are terrorist lovers terrorists or is Musharraf who fought them both? These ‘lawyers’ beat up judges, contrary lawyers, journalists, cameramen, photographers and politicians. They are officers of the court but like serial contemnors they repeatedly bring the judiciary into contempt by their hooliganism. They obviously don’t know the law. Judges in an egalitarian state where blind justice prevails equitably and every citizen is equal before the law should have cancelled their licenses and imprisoned them for mayhem and causing grievous bodily harm – or are they scared of them? The chief justice took nary any notice. But I suppose some citizens are more equal then others, what? This state has become Bedlam.

The government instituted this particular case against Musharraf for placing certain judges under house arrest on the instructions of the judiciary. Some of the same judges are still in various courts, including the chief justice, whether they sit on the bench hearing it or not. There is such a thing as influence. Judges are the injured party, complainants and adjudicators all at the same time, as Faiz lamented. Can judges be judges in their own cause? Can anyone? Is it due process? Many of these judges legitimized the 1999 countercoup and took oath under Musharraf’s first PCO. Are they Lilly White clean or are they a danger to Snow White? A partisan judiciary and a partisan media are the last thing a real democracy needs. They become democracy’s death knell.

Try Musharraf certainly in all cases that have been filed against him, no one is saying otherwise, but try all his “aiders, abettors and collaborators” too and only under due process. If the state doesn’t display wisdom, balance and equity and justice doesn’t flow from the courts it will soon start flowing through the barrel of a gun toted either by the army with gloves off or terrorists who don’t know what gloves are. God help us then. No one wants that for then there will be grave injustices. The prosecutors and persecutors of today will become the prosecuted and persecuted of tomorrow. We have dug ourselves into a ditch yet we continue digging. If we don’t stop digging the ditch will become our grave.

If they think that this will prevent future army interventions they could unwittingly hasten it. Just as the lawyers felt humiliated by the treatment meted out to their chief and came out in protest, the army will also feel humiliated with Musharraf’s hounding and could come out in protest in its own way. I would love to hear today’s chatter in the barracks and the messes.

If putting judges under house arrest is terrorism, then what is giving bail to numerous terrorists who went on to commit heinous acts of terrorism? Lack of evidence forsooth such outdated and ineffective laws and procedures must be changed. This was the first point in the 2007 Proclamation of Emergency. Nobody in his right mind could disagree with it. The blood of all those killed by the terrorists is on the hands of those magistrates and judges that gave them bail. So too the responsibility for the pain of those maimed and the lives destroyed of the victims’ families.

They would also try Gen Musharraf for treason under Article 6 for the 2007 emergency but not for the 1999 countercoup which the Supreme Court legitimized and became “aiders, abettors and collaborators”, as did the then president, the initial cabinet, politicians, generals, bureaucrats, editors and journalists who supported it. But in an act of legal terrorism against our collective intelligence, the last parliament of geniuses indemnified them all. If the 1999 countercoup had not been legitimized there is no way the 2007 emergency could have happened. You cannot take cognizance of the effect and not the cause.

Which Article 6 are they going to try Musharraf under, the one that obtained in 1999 and 2007 or the new one changed by the last parliament? The first didn’t contain the word ‘abeyance’, the second one does. The conclusion seems sadly inescapable that the amendment was Musharraf specific for he didn’t impose martial law nor abrogated the constitution but only put some of its articles in abeyance for a time – for 42 days in 2007 during which time he retired from the army. Is this their devious gambit of trapping him while saving their own skins, those who sat in the late parliament courtesy the NRO and pardons? Our late parliament of geniuses should have known that laws are made for dispensing justice, not extracting revenge. If these geniuses think that by indemnifying them the “aiders, abettors and collaborators” of 1999 they are off the hook they have another thought coming. There is manmade justice on earth and Divine Justice perpetually going on in Heaven. The wheels of God grind slowly but they grind exceedingly fine. There is no way that Musharraf can be tried for ‘high treason’ only for the 2007 emergency and not for the 1999 countercoup along with all “aiders, abettors and collaborators”. That justice should not only be done but also be seen to be done is axiomatic; so too impartiality that should not only obtain but also seen to obtain.

The writer is a political analyst. He can be contacted at[email protected]

, , ,

No Comments