جی ہاں یہی قیمت لگائی جا رہی ہے وکلاءتحریک کی سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت نمبر 1- میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سپریم کورٹ کے وکلاءکو اسلام آباد میں ایک ایک کن
ال کے پلاٹوں کی تقسیم کی درخواستوں پر ”مفاد عامہ“ میں غور فرما رہے ہیں۔ ان کی سربراہی میں قائم عدالت عظمیٰ کا سہہ رکنی بنچ سپریم کورٹ بار کوآپریٹو ہا¶سنگ سوسائٹی کی اسلام آباد کے زون 1 میں زمین حاصل کرنے کی درخواست پر سی ڈی اے اور وفاقی حکومت کے نمائندوں کو کئی دنوں سے طلب کر رہا ہے۔وکلاءکی اس نجی تنظیم کو شاہراہ دستور کے قریب عوام کے پیسے سے ایک ہاسٹل بھی بنا کر دیا جا رہا ہے جس پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے نام کی تختی بھی لگی ہے۔ چیف جسٹس نے اس ہاسٹل کے لئے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی اعلان کردہ 14 کروڑ روپے میں سے 5 کروڑ روپے کی ادائیگی میں تاخیر پر سخت نوٹس بھی لیا ہے۔ راجہ پرویز اشرف کے اربوں روپے کے منصوبوں اور ان کے ترقی اور تبادلوں کے آخری دنوںکے احکامات کو غیر آئینی قرار دیا گیا۔ اب کالے کوٹ والے اپنی ہی عدالت لگا کر آئین‘ قانون اور مفاد عامہ کے نام پر راجہ پرویز اشرف کی ہاسٹل کے لئے اعلان کردہ رقوم کے حصول کےلئے موجودہ حکومت پر دبا¶ ڈال رہے ہیں؟ سپریم کورٹ بار پہلے ہی 40 کروڑ روپے سے زائد عوامی خزانے سے اس ہاسٹل پر خرچ کر چکی ہے۔
بجلی‘ گیس‘ پٹرولیم کی قیمتوں سے متعلق سماعتوں میں تو غریب اور بھوک سے عاجز عوام اور عیاش سیاستدانوں کا ذکر خوب ہوتا ہے۔ تو کیا بھوکے ننگے عوام کی جیب سے کروڑوں روپے نکال کر شاہراہ دستور پر نجی ہاسٹل کی تعمیر عیاشی نہیں؟جس آئین‘ قانون اور ضابطہ اخلاق کی بالادستی کے لئے وکلاءتحریک چلائی گئی‘ ان کیسوں کی سماعت میں ان تمام اقدار کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے وکلاءکے ہاسٹل کی تعمیر میں شروع سے ذاتی دلچسپی لے رکھی ہے۔ وکلاءکی درخواست پر انہوں نے سپریم کورٹ کے ایک معزز جج کو ہاسٹل کی تعمیراتی کمیٹی کا رکن بھی مقررکیا ہے اور دوسری طرف اپنے ہاتھ سے نامکمل ہاسٹل میں اپنے نام کی تختی بھی لگائی جس کے لئے تقریبات بھی ہوئیں اور آج بروز سوموار بھی چیف جسٹس صاحب پہلے اس ہاسٹل کی تعمیر کے لئے فنڈز کے اجراءکے کیس کی سماعت کریں گے اور پھر اسی ہاسٹل کے افتتاح کے لئے ایک اور تختی کی نقاب کشائی بھی کرنے جائیں گے۔ کیا اس معاملہ میں عدلیہ کے ضابطہ¿ اخلاق کو یاد نہیں کیاجاسکتا۔
سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور دوسرے سیاستدانوں پر اقتدار کے آخری دنوں میں عوامی پیسہ لٹانے کا الزام اپنی جگہ مگر کیا چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے اس سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ارکان کو ایک ایک کنال کے پلاٹ کا مالک بناکرچھوڑنا چاہتے ہیں جس نے انہیں کندھے پر بٹھا کر چیف جسٹس کی مسند پر لا بٹھایا تھاکیا سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کے دوسرے بڑے مقدمات ختم ہو چکے ہیں؟ کیا سی ڈی اے کے زون ون میں وکلاءکے لئے ایک ایک کنال کے پلاٹ (جو تقریباً 60 لاکھ میں الاٹ ہوں گے اور شاید کروڑوں میں فوری طور پر بک جائیں گے)مفاد عامہ میں ہیں؟ کیا اس کے بعد وکلاءاپنی خدمات عوام کو مفت یا رعایتی نرخوں پر فراہم کریں گے؟ اور کیا ان درخواستوں کا فیصلہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے پہلے ہونا لازمی ہے؟
کمرہ عدالت میں ایک عجیب منظر دیکھنے کو ملتا ہے جہاں وکلاءاور ان کے نمائندوں کی بڑی تعداد کے علاوہ وفادار میڈیا بھی موجود ہوتا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پلاٹ مانگنے والوں کی طرف سے بھی وکیل پیش ہیں جنہیں پلاٹ ملنا ہے اور سی ڈی اے کی طرف سے بظاہر مخالفت کرنے والے بھی وکیل ہیں جو کیس ہار کر پلاٹ کے حقدار ٹھہریں گے ۔ ہر کوئی بڑی جلدی میں لگتا ہے۔ دوسری طرف سی ڈی اے کے وکیل افنان کنڈی صاحب بھی بظاہر ایک ”ولن“ کا مخالفانہ ڈائیلاگ ادا کر کے اپنی ذمہ داری پوری کر رہے ہیں ایک ایسی فلم میں جس کا انجام کافی واضح ہو رہا ہے۔انکی دلیل واضح ہے کہ سی ڈی اے کے قوانین کے تحت ایک نجی کوآپریٹو سوسائٹی کو زون ون میں زمین نہیں دی جاسکتی۔ اس صورت حال میں وفاقی ملازمین کی ہا¶سنگ فا¶نڈیشن بھی وکلاءکے کاندھے پر بندوق رکھے گھات لگائے بیٹھی ہیں۔ اس فا¶نڈیشن کو زون ون میں سکیموں کی اجازت نہیں ملی اور یوں اب ان کے لئے ایک سنہری موقعہ ہے۔ زون ون میں نجی سکیموں کو اجازت دینے کے لئے سمری وزیراعظم کے پاس ہے۔ سپریم کورٹ بار بار ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور سی ڈی اے کے افسروں کو کمرہ عدالت میں بلا کر کھڑا کر دیتی ہے اور خود کوئی حکم پاس کرنے کی بجائے بظاہر حکومت سے فیصلہ کروانے کی حکمت عملی اپنا رہی ہے۔ چاہے زیر تعمیر ہاسٹل کے لئے فنڈز کے چیک کا معاملہ ہو یا وکلاءکی رہائشی سکیم کا اس معاملے پر تقریباً روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرنا اور پھر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا یہ کہنا کہ سمری وزیراعظم کو بھیج دی گئی۔ ایک واضح اشارہ ہے کہ مسئلہ قوانین کا نہیں بلکہ وزیراعظم نواز شریف کے ایک دستخط کا ہے۔
جلد بازی نہ کرنے کی بہت سی اخلاقی اور اصولی وجوہات ہیں۔ 31 اکتوبر کو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات ہو رہے ہیں۔ سپریم کورٹ بار میں چیف جسٹس کے حامی اور مخالفت گروپوں کی سیاست کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ جو بھی ان انتخابات میں جیتے گا وہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی الوداعی تقریب منعقد کرانے (یا نہ کرانے) کا مجاز ہو گا۔ ہاسٹل کی حکومتی فنڈنگ اور اسلام آباد میں وکیلوں کے لئے ایک ایک کنال کے پلاٹ کو عدالتی فیصلے سے یقینی بنایا جائے گا تو بار ایسوسی ایشن کے انتخابات میں تنظیم کی موجودہ باڈی اور چیف جسٹس کا حامی گروپ یقیناً اس چیز کا فائدہ اٹھا سکتا ہے مگر ہاسٹل اور رہائشی سکیم کی مخالفت نہ کرنا چیف جسٹس کے مخالف وکلاءگروپ کی بھی سیاسی مجبوری ہے ۔وکلاءکی طرف سے حکومت اور عدلیہ پر دبا¶ کوئی نئی بات نہیں۔ حال ہی میں اسلام آباد کی ضلعی عدالتوں کو وکلاءکی طرف سے تالا لگا کر کئی بار بندکیا گیا۔ وکلاءنے کچہری کے قریب ہی سی ڈی اے کی ایک فٹ بال گرا¶نڈ پر قبضہ کر کے غیر قانونی چیمبروں کی تعمیر شروع کر دی ہے۔ سپریم کورٹ کے علم میں ہونے کے باوجود فٹ بال گرا¶نڈ کے قابضین وکلاءکے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور سی ڈی اے اور حکومت ویسے ہی وکلاءسے ڈرتی ہیں۔
آخر کالے کوٹ اور کالی شیروانی میں فرق ہی کیا رہ گیا ہے؟ اس ملک میں جس کا دا¶ لگا اس نے لگا دیا۔ کبھی عوام کے نام پر کبھی انصاف کے نام پر۔ ہمیں ڈکشنری میں موجود لفظ شرمناک کو اس سے نکالنا پڑے گا۔