Our Announcements
Sorry, but you are looking for something that isn't here.
Posted by admin in Energy, Energy Scam, ENVIRONMENTAL DAMAGE BY OIL INDUSTRY on March 12th, 2015
Dear Pakistani’s Read & Think!!!!! (THIS IS THE ELECTRICITY GAME PLAYED BY OUR PRESENT LEADERS IN PAKISTAN)
Dear Pakistanis !
Read, Think & understand the game International Powers are playing with us with the help of ?Who- Zardari ? IMF ?
Electricity produced in Pakistan is from three main sources.
1). Hydral
2). Thermal (Gas/Steam/Furnace Oil)
3). Nuclear
There are four major power producers in country which include Water & Power Development Authority (WAPDA), Karachi Electric Supply Company (KESC), Independent Power Producers (IPPs) and Pakistan Atomic Energy Commission (PAEC).
Below is the break-up of the installed capacity of each of these power producers (as of June-2008).
1. WAPDA
a. WAPDA Hydel
Tarbela3478 MW
Mangla1000 MW
Ghazi-Brotha1450 MW
Warsak243 MW
Chashma184 MW
Dargai20 MW
Rasul22 MW
Shadi-Waal18 MW
NandiPur14 MW
Kurram Garhi4 MW
Renala1 MW
Chitral1 MW
Jagran (AK)30 MW
Total Hydel==> 6461 MW
b. WAPDA Thermal
Gas Turbine Power Station, Shadra59 MW
Steam Power Station, Faisalabad132 MW
Gas Turbine Power Station, Faisalabad244 MW
Gas Power Station, Multan195 MW
Thermal Power Station, Muzaffargarh1350 MW
Thermal Power Station, Guddu1655 MW
Gas Turbine Power Station, Kotri174 MW
Thermal Power Station, Jamshoro850 MW
Thermal Power Station, Larkana150 MW
Thermal Power Station, Quetta35 MW
Gas Turbine Power Station, Panjgur 39 MW
Thermal Power Station, Pasni17 MW
Total Thermal==> 4811 MW
WAPDA’s Total Hydel + Thermal capacity is ==> 11272 MW
2. Karachi Electric Supply Company
Thermal Power Station, Korengi316 MW
Gas Turbine Power Station, Korengi80 MW
Gas Turbine Power Station, SITE100 MW
Thermal Power Station, Bin Qasim 1260 MW
Total (KESC)==> 1756 MW
3. Independent Power Producers (IPPs)
Hub Power Project1292 MW
AES Lalpir Ltd, Mahmood Kot MuzaffarGarh362 MW
AES Pak Gen, Mahmood Kot MuzaffarGarh365 MW
Altern Energy Ltd, Attock29 MW
Fauji KabirWala Power Company, Khanewal 157 MW
Gul Ahmad Energy Ltd, Korengi136 MW
Habibullah Coastal Power Ltd140 MW
Japan Power Generation, Lahore120 MW
Koh-e-Noor Energy Ltd, Lahore &n bsp; 131 MW
Liberty Power Limited, Ghotki232 MW
Rousch Power, Khaniwal412 MW
Saba Power Company, Sheikhpura114 MW
Southern Electric Power Company Ltd, Raiwind 135 MW
Tapal Energy Limited, Karachi &n bsp;126 MW
Uch Power Ltd, Dera Murad Jamali, Nasirabad 586 MW
Attock Gen Ltd, Morgah Rawalpindi165 MW
Atlas Power, Sheikhpura225 MW
Engro Energy Ltd, Karachi—– MW
Kot Addu Power Company Limited (Privitized) 1638 MW
Total (IPPs)===> 6365 MW
4. Pakistan Atomic Energy Commission
KANUPP137 MW
CHASNUPP-1325 MW
Total (Nuclear)===> 462 MW
Hydel Electricity generated by WAPDA varies between two extremities i.e. between minimum of 2414 MW and maximum of 6761 MW depending upon the river flow through the whole year.
Total Power Generation Capacity of Pakistan (including all sources) is 19855 MW and the electricity demand (as of today 20-04-2010) is 14500 MW and PEPCO is merely generating 10000 MW.
So it is obvious that these 15-20 hrs power shutdowns in most parts of the country are not because of the lack of generation capacity but only because of IMF / World Bank policies imposed on our nation by the Government. The Power Generation companies are not buying Furnace Oil from PSO by saying they don’t have money to do that but we are all paying for Electricity that is generated from Furnace Oil. This is the reason that top refineries like PRL are operating at 40% capacities. IMF / World bank has imposed to reduce budget deficit by importing less crude oil. But due to this fact all our industries are under severe crisis. None of our political party who are in Assembly is ready to speak on it because everyone is blessed by US / IMF / World Bank.
Dear Pakistani’s,
This is a time to show your social activism your power and strength. It is your silence which is deafening and your couldn’t care less attitude which makes the people in power more powerful evasive and secure in their Air conditioned offices.
WE WANT ELECTRICITY IN PAKISTAN.
Electricity now is @11 Rs. per unit, and it will increase after every two months as directed by (American) IMF policies.
These people are there because of your votes. Let them serve you rather than rule you……
NOW THIS IS OUR TIME TO SHOW THE GOVERNMENT YOUR STRENGTH.
PLEASE SPREAD THIS MESSAGE AS MUCH AS YOU CAN, BECA– — USE OF THIS MESSAGE MANY PEOPLE WOULD COME TO KNOW ABOUT THE TRUTH
توانائی کا بحران، سنجیدہ اقدامات ضرورت
تحریر: غزن بہزاد
پاکستان سمیت دنیا کے متعدد ممالک اس وقت توانائی کے بحران کا شکار ہیں جس کے باعث انہیں معیشت کے ساتھ ساتھ روزمرہ زندگی میں بھی کئی مسائل کا سامنا ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین یہ جائزہ لینے میں مصروف ہیں کہ اس بحران کی نوعیت کیا ہے؟ کیا یہ عالمی رخ اختیار کرسکتا ہے ؟ اور یہ کہ اس صورتحال پر بھارت اور چین جیسے ممالک کی تیزی سے ترقی کرتی معیشتیں کیا اثرات ڈال رہی ہیں؟
ؔ اس وقت دنیا کی مضبوط ترین معیشتیں بھی توانائی کے بحران سے مکمل طور پر محفوظ نہیں۔ مغربی و امریکی تجزیہ کاروں کے مطابق اس وقت دنیا کے متعدد ممالک کو توانائی کی شدید قلت کا سامنا ہے، لیکن اس کی نوعیت تاحال بین الاقوامی نہیں، تاہم خام تیل کی قیمت ۱۵۰ سے ۲۰۰ ڈالر فی بیرل ہو جانے کی صورت میں توانائی کا عالمی بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ انفرادی سطح پر دنیا کے اکثر ممالک کو توانائی کی قلت کا سامنا ہے، جو کبھی بجلی، تیل اور کبھی ایندھن کی کمی کی صورت میں عام لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کررہی ہے۔
ماہرین کی اکثریت اس بات سے متفق ہے کہ توانائی کے بحران کی ایک بڑی وجہ دنیا کا تیل پر حد سے زیادہ انحصار ہے۔ ماہرین کی جانب سے ابھرتی ہوئی معیشتوں، مثلاً چین، بھارت اور برازیل جیسے ممالک کی تیز رفتار صنعتی ترقی کو توانائی کے بحران کیلئے مورد الزام ٹھہرایا جارہا ہے۔ ان معیشتوں میں ترقی کی رفتار دیگر صنعتی ممالک کے مقابلے میں سالانہ اندازاً ۳ فیصد زائد ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں توانائی اور دیگر خام مال کا استعمال بھی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ دوسری جانب کچھ اقتصادی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ توانائی کی قلت کے بڑھتے ہوئے مسئلے کیلئے صرف ابھرتی ہوئی معیشتوں کو ذمہ دار ٹھہرانا انصاف نہیں، کیونکہ اس قلت کی اصل وجہ توانائی کے وسائل میں اضافے اور متبادل ذرائع کی تلاش کیلئے مناسب منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ توانائی کے بحران سے، خواہ کسی بھی قسم کا ہو، پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے عوام نسبتاً زیادہ متاثر ہوتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ آخر اس کا حل کیا ہوسکتا ہے؟ ہنگامی صورتحال کیلئے بین الاقوامی سطح پر خام تیل کے ذخائر میں اضافہ، طویل مدت کیلئے تیل کی ایک بہتر اور مستحکم قیمت برقرار رکھنا اور کاربن سے پاک توانائی کی اقسام کے استعمال کی حوصلہ افزائی جیسے اقدامات سے اس مسئلے کا پائیدار حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔
عالمی درجہ حرارت میں اضافہ توانائی کی قلت کے مسئلے کی شدت میں بھی مزید اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے بھارت اور چین کے علاوہ چند دیگر ممالک میں بھی توانائی کے متبادل ذرائع کی تلاش اور ان کا استعمال بڑھانے کی کوششوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ماہرین کو توقع ہے کہ یہ ممالک نہ صرف متبادل ذرائع سے اپنی توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات پوری کرنے میں آگے بڑھ سکیں گے، بلکہ آلودگی کے مسئلے پر قابو پانے میں بھی پیش رفت کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
جنوبی ایشیاء کا انتہائی اہم ملک پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے بجلی، قدرتی گیس، پیٹرولیم، کوئلے اور لکڑی پر انحصار کرتا ہے، جبکہ ماہرین کے مطابق قدرتی وسائل سے مالامال ہونے اور توانائی کی فراہمی کے بنیادی ڈھانچے کی موجودگی کے باوجود اس شعبے میں پاکستان کو درپیش مسائل کی بنیادی وجہ گذشتہ ۶ دہائیوں میں حکومتوں کی جانب سے مناسب منصوبہ بندی نہ کرناہے۔
اس وقت پاکستان کو درپیش ایک اہم مسئلہ بجلی کی طلب و رسد میں توازن نہ ہونا ہے۔ پاکستان کو اس وقت تقریباً ۶ ہزار میگا واٹ بجلی کی کمی کا سامنا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کو بجلی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے نجی شعبے کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے علاوہ نجی اور عوامی پارٹنرشپ کی بھی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔ دوسرا حل پاکستان میں کم بجلی سے چلنے والے الیکٹرونک آلات کی فراہمی پر توجہ دینا ہو سکتا ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق پاکستان میں پانی اور جوہری ذرائع سے بجلی کی پیداوار تقریباً ۱۳ ہزار میگا واٹ، جبکہ بجلی کی مجموعی طلب تقریباً ۱۹ ہزار میگا واٹ ہے۔
پاکستان کی ۴۰ صد آبادی بجلی کی سہولت سے تاحال محروم ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی بجلی کی ضروریات آئندہ ۲۰ سال میں ۳۵۰ فیصد تک بڑھ جائیں گی۔ بجلی کی پیداوار بڑھانے اور پانی کے مسائل پر قابو پانے کیلئے ماہرین کے مطابق پاکستان میں نئے ڈیمز کی تعمیر اور بجلی کی تقسیم کے نظام میں موجودہ خرابیاں دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بجلی کی کمی کے باعث پاکستان کا ۵۰ فیصد صنعتی شعبہ تباہ ہو چکا ہے جبکہ اس کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری دیگر مسائل کی وجہ بن رہی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات کا ۷۹ فیصد تیل اور گیس سے پورا کرتا ہے۔ پاکستان چونکہ اپنی تیل کی ضروریات کا محض ۲۰ فیصد ہی مقامی طور پر حاصل کرتا ہے، اسلئے پیٹرولیم مصنوعات کے سلسلے میں پاکستان کا زیادہ دارومدار دیگر تیل پیدا کرنے والے ممالک پر ہے، جس سے پاکستانی معیشت پر نہ صرف شدید دباؤ ہے بلکہ اس کے ساتھ عوام اور صنعتی شعبہ بھی اس سے براہ راست متاثر ہو رہا ہے۔
پاکستان میں قدرتی گیس کے ذخائرکی موجودگی توانائی کے شعبے پر موجودہ دباؤ کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے لیکن بلوچستان میں گیس پائپ لائنوں کو دھماکوں سے تباہ کئے جانے کے متعدد واقعات نے قدرتی گیس کی فراہمی کے بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق توانائی کے مسائل حل کرنے کیلئے پاکستانی حکومت کو قدرتی وسائل کے بہتر استعمال کو یقینی بنانا ہوگا۔
پاکستان کوئلے کے موجودہ ذخائرکے لحاظ سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔ اس ضمن میں پاکستانی حکومت سال ۲۰۱۸ء تک توانائی کیلئے کوئلے پر انحصار ۷ سے ۱۸ فیصد تک بڑھانے کا ارادہ بھی رکھتی ہے، لیکن کوئلے سے توانائی حاصل کرنے کے منصوبوں پر کام کرنا پاکستان کیلئے ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔
پاکستان میں گزشتہ ۵ سال کے دوران آنے والی دو بڑی قدرتی آفات کے نتیجے میں بھی توانائی کے بنیادی ڈھانچے کو زبردست نقصان پہنچا ہے، جبکہ دہشت گردی اورملک کی مجموعی غیر یقینی صورتحال بھی توانائی کے شعبے میں بیرونی سرمایہ کاری کی راہ میں حائل ہو رہی ہے۔
توانائی کے شعبے سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی بڑھتی آبادی کے ساتھ توانائی کے مسائل میں بھی اضافہ ہوگا، جن پر قابو پانے کیلئے فوری اور طویل المدتی منصوبوں پر ترجیحی بنیادوں پر عمل درآمد ضروری ہے، کیونکہ اب یہ پاکستان کے سیاسی استحکام کا معاملہ بھی بنتا جارہا ہے۔—
Short Link: http://technologytimes.pk/post.php?id=3732
India witnessed a peak power shortage of 9 per cent during the five years ending 2012 when over 50,000 MW new generation capacity was created, the Economic Survey said today.
“During the 11th Five Year Plan (2007—12), nearly 55,000 MW of new generation capacity was created. Yet, there continues to be a peak shortage of 9 per cent,” it said.
Peak power shortage is shortfall in generation capacity when electricity consumption is maximum.
The survey said the resources currently allocated to energy supply are not sufficient for narrowing the gap between energy needs and energy availability.
One of the key challenges remain resolving the energy bottlenecks. Further, the country’s excessive reliance on imported crude oil make it imperative to have an optimal energy mix that will allow it to achieve its long—run goal of sustainable development.
As on March 2011, the country’s estimated coal reserves were at about 286 billion tonnes, lignite at 81 billion tonnes, crude oil at 757 million tonnes and natural gas 1,241 billion cubic metre (BCM).
Electricity generation by power utilities during 2012—13 was targeted to go up by 6.05 per cent to 930 billion units.
The growth in power generation during April to December, 2012 was 4.55 per cent as compared to about 9.33 per cent during April—December, 2011.
The estimated hydro potential is about 1,45,000 MW. The total potential for renewable power generation from various sources other than large hydro projects stood at 89,760 MW.
Import dependence on crude oil is projected at 78 per cent while that in coal will be 22.4 per cent by 2016—17, Survey said.
An integrated power transmission grid helps to even out supply—demand mis—matches. The existing inter—regional transmission capacity of 27,750 MW connects the northern, western, eastern and north—easterns in a synchronous mode operating at the same frequency and southern region asynchronously operating in the same mode.
Synchronous inter—connection of the southern region with other regions is expected to be established by April, 2014.
Meanwhile, trading in electricity is enabled through traders and power exchanges that optimises generation resources by facilitating trade and flow of electricity across the country.
It has helped in sale of surplus power by distribution utilities and captive power plants on one hand, and purchase of electricity by deficit firms on the other hand to meet sudden increases in demand, it said.
The capacity addition during the 12th plan period (2012—17) is estimated at 88,537 MW comprising 26,182 MW in the central sector, 15,530 MW in the state sector and 46,825 MW in the private sector respectively.
The capacity addition target for the year 2012—13 was set at 17,956 MW. A capacity of 9,854 MW has been added till December 2012.