Anti-drone protesters hold signs before the start of the Senate intelligence committee hearing on the nomination of John Brennan as CIA director. (Photograph: Michael Reynolds/EPA)The armed drone is being heralded as the next generation of American military technology. It can fly overheard with its unblinking eye, almost invisible to its targets below. Without warning, its missiles will strike, bringing certain death and destruction on the ground. All the while, the military pilot, sitting in a cushioned recliner in an air-conditioned room halfway across the world, is immune from the violence wrought from his or her single keystroke.
While the debate about drones in this country swirls around the precision of the weapon, the sometimes faulty intelligence behind its unleashing of a missile, the ability to keep American boots off the ground, or the legality of the strikes, few take into consideration the morality of the weapon and the damaging effects of its use on both the people targeted and the individuals operating it. The ripples of the drone strikes are felt far beyond those killed or wounded in the actual strike.
Americans are just now becoming dimly aware of the problems and dangerous precedents being set for the future.
The drone is destabilizing the small tribal communities of the Pukhtun, Somali, and Yemeni with their ancient codes of honor, making it difficult to implement any long-term peace initiatives in the volatile regions already being pounded by their own militaries. Too many stories have filtered into the media of innocent men, women, and children being killed.
People have fled their families and their homes due to the constant violence and are forced to live as destitute and vulnerable refugees in the slums of larger cities. They are lost without the protection of clan and code. The drone is also feeding into a growing anti-Americanism, becoming a deadly symbol of the United States, and fueling the recruitment of future terrorists.
At one stroke, the drone has destroyed any positive image of the United States in the countries over which it operates. It has contributed to the destruction of the tribal codes of honor, such as Pukhtunwali among the Pukhtun tribes of Afghanistan and Pakistan. And this immorality and destructive nature reflects back on those who use it, harming the warrior ethic of the American military so critical to battlefield bonding among soldiers in combat.
The warrior ethos may be largely a myth but, like most myths, it protects something very important: the psychology of killing in the name of the state. That killing becomes nothing less than murder when the soldier doing it is utterly invulnerable. Most US citizens, so long divorced from any responsibility to take up arms and fight and kill, do not understand this. Soldiers – good ones – do. Such understanding was behind the recent cancellation by Secretary of Defense Hagel of the valor award for drone operators.
Moreover, remote-controlled killing is a dishonorable way of fighting battle, not simply because it often results in the deaths of women and children and removes the combatants from face-to-face combat. It is making war more like a video game and giving technicians the dissociated power of life and death for the figures on the screen before them. It is making war into murder.
After over a decade mired in a seemingly endless war against a methodology as old as time, it is clear that the extension of military force is increasingly counterproductive.
However precise the weapon, this is the reality and the price on the ground, destroying the codes so vital to both parties involved – those who are targets and the people who see them die and the operators at their computer terminals. The use of the drone is creating more problems than it is solving.
Americans are just now becoming dimly aware of the problems and dangerous precedents being set for the future. We have read reports of drones the size of a mosquito, police gaining possession of potentially armed domestic drones, and violations of the laws of privacy in the United States. These are apart from the fact that many foreign powers, many of which are hostile to us, will soon have broad access to drone technology without any mechanisms or international agreements to regulate its use.
Washington has plunged blindly ahead, neglecting law – both domestic and international – protocol, and ethical codes. We find it distressing that the debate on the drone, which has now picked up in the United States, remains so narrow – with none of these points being raised except in esoteric circles. The debate has been enmeshed in the emotional responses to the war on terror: if you like the drone, you are pro-American; if you don’t, you are anti-American. It has, unfortunately, become a definition of patriotism despite its destructive nature on both sides.
After over a decade mired in a seemingly endless war against a methodology as old as time, it is clear that the extension of military force is increasingly counterproductive. The United States needs to pursue political, economic, diplomatic, and law enforcement solutions.
Instead of sending missiles and funding military operations that destroy societies, the US and its allied central governments should be funding education projects and development schemes and promoting honest and just civil administration. In this effort, we all should be guided by the Jewish shibboleth tikkun olam, to go out and “heal a fractured world”.
آئیں اپنی آواز بلند کریں & PHOTOESSAY ON BRUTALITY OF DRONE ATTACKS ON CHILDREN
Posted by admin in BREAKING INTERNATIONAL LAW - DRONE ATTACKS, Commentary on October 29th, 2013
آئیں اپنی آواز بلند کریں
میں تقریبا تیس منٹ تک سڑک کنارے سٹاپ پر دیگر لوگوں کیساتھ کھڑا گاڑی آنے کا انتظار کررہا تھا دن کے اوقات میں گاڑی تو آسانی سے مل جاتی ہیں لیکن رات کے وقت دس بجے کے بعد گاڑیاں بہت کم ہی چلتی ہیں اسی وجہ سے پشاور جیسے شہر میں لوگ سٹاپوں پر انتظار کرتے رہتے ہیں اور جن کےجیب میں پیسے ہوں تو وہ رکشہ یا ٹیکسی میں بیٹھ کر اپنی منزل کو روانہ ہو جاتے ہیں تقریبا پینتالیس منٹ بعد ایک گاڑی آکر رکی اس سے کنڈیکٹر اترا اور پشاور صدر تک آواز لگائی ساتھ میں گاڑی میں بیٹھنے والوں کو کہہ دیا کہ کرایہ پندرہ روپے ہوگا حالانکہ کرایہ دس روپے تھا میں بھی سنی ان سنیکرتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گیا گاڑی روانہ ہوگئی اور کنڈیکٹر نے کرایہ مانگا میں نے جیب سے سو روپے نکال کردئیے اس نے بقایا 80 روپے مجھے دئیے میں نے اس سے پوچھا بھائی میرے دس روپے اور بھی دو کیونکہ ہشتنگری سے صدر تک کرایہ دس روپے ہے کنڈیکٹر نے جواب دیا کہ صاحب میںپانچروپے واپس کردیتا ہوں میں نے اسے کہا کہ دس روپے واپس دو اس نے جواب دیا کہ میں نے گاڑی میں بیٹھنے والے تمام مسافروں کو کہا تھا کہ کرایہ پندرہ روپے ہے میں نے اس سے پوچھا کیوں یہ تمھارا فیصلہ ہے اگر کرایہ نامہ ہے اور اس پر پندرہ لکھا ہے تو مجھ سے بیس روپے لو لیکن اگر کرایہنامہ نہیں تو پھر مجھے دس روپے واپس کردو کنڈیکٹر نے جواب دیا کہ بھائی میرے یہ گاڑی میری ہے اور آپ اپنے پیسے واپس لیکر اتر جائیں میں نے اسے جوابا کہا کہ گاڑی اگر تمھاری ذاتی ہے تو پھر مسافر وں کو کیوں اٹھا رہے ہوں اور سڑک جس پر تمھاری گاڑی چل رہی ہیں یہ میرے جیسے لوگوںکی ٹیکسوں کی کمائی لگی ہے اگر خان ہونگے تو اپنے لئے مجھے تم اتار بھی نہیں سکتے کرایہ مجھے پورا لو اور مجھے اپنے سٹاپ پر پہنچائو گے اس پر کنڈیکٹرکو غصہ آیا لیکن مجھے کہنے لگا کہ خاموش ہو جائو تم سے دس روپے لیتا ہوں لیکن دوسرے مسافروں کے سامنے بحث مت کرو کیونکہپھر یہ بھی نہیں دینگے میں نے اسے کہا کہ غلط بات مت کرو مجھے اپنے پیسے واپس کرو اس نے بادل نخواستہ مجھے دس روپے واپس کردئیے اسی دوران گاڑی میں مسافر بیٹھے ہوئے تھے لیکن سب نے میرے بعد اسے پندرہ روپے دئیے اور وہ کنڈیکٹر مسافروں پر یہ احسان کرتا رہا کہ اس وقت گاڑی نہیںتھی اگر میں نے آتا تو آپ لوگ کھڑے رہتے اس لئے میرا احسان مانو کہ میں پندرہ روپے میں تمھیں پہنچا رہا ہوں یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے آگے پیچھے چھوٹے بڑے کس طرح دوسروں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور ہم بے حس لوگوں کی طرح خاموشبیٹھے انہیں دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ اگر میں نے کچھ کہہ دیا تو شائد مجھے کوئی نقصان ہو جائے ہم لوگ آواز نہیں اٹھاتے نہ ہی اپنا احتجاج ریکارڈ کرتے ہیں حالانکہ ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہورہی ہیں لیکن صرف اپنی بے عزتی چھوٹے سے نقصان ڈر اور خوف کی وجہ سے خاموش رہتےہیں اور یہی وہ چیز ہے جس کا فائدہ ان کنڈیکٹر جیسے بے حس بے غیرت لوگ اٹھاتے ہیں اور شریف لوگ کڑھتے ہی رہتے ہیں کہ شائد ہماری آواز سے کچھ نہ ہو اور یہی ہماری سب سے بڑی غلطی ہوتی ہے-
اب اسی چیز کو آپ بڑے کینوس پر دیکھ لیں کیا یہ ملک کل کے چور وں اور آج کے ڈاکوئوں کیلئے بنا ہے جو جمہوریت کی راگ الاپ رہے ہیں ملک میں جمہوریت کی مضبوطی جیسے نعرے بلند کرکے اس قوم کو بے وقوف بنا رہے ہیں ایک دوسرے کو باری آنے پر حکومت دینے والے میڈیا اور اپنے چندخوشامدی صحافیوں کو استعمال کرکے پوری قوم کا استحصال کررہے ہیں لیکن اس ملک سے کوئی آواز ہی نہیں اٹھ رہی ہر شخص یہی سوچ کر خاموش بیٹھ جاتا ہے کہ میرے آواز بلند کرنے سے کچھ نہیں ہوگا کیا یہ ملک مخصوص خاندانوں اور ان کے بچوں کیلئے کھیلنے کا میدان ہے کہ جب ان کا دل چاہاسیاست کے میدان میں آئے ایک دوسرے کے خلاف آواز بلند کی اور ہم جیسے بے وقوف صحافی ان کی آواز بن گئے اور پوری قوم کو چور اور ڈاکوئوں کے پیچھے لگا دیا اور آوے اور جاوے کے نعرے لگنے شروع ہوگئے-آوے جاوے کی سیاست کرنے والے اور بھاری مینڈیٹ لیکر آنیوالوں کا یہ حال ہےکہ دو ماہ میں بجلی کی قیمتیں کہاں سے کہاں تک پہنچا دی ہیں کل تک عزت غیرت کے دکانداری کرنے والے آج قرضے مانگ کر اس قوم کو بیڑہ غرق کرنے پر تلے ہوئے ہیں سابق حکمرانوں کو اس صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرا کر اب حالات بہتر کرنے کے دعوے کئے جارہے ہیں اب کوئی یہ نہیں پوچھتا کہپانچ سال تک تو آپ ہی ان کے اپوزیشن لیڈر بنے ہوئے تھے اور انکو سپورٹ کررہے تھے خوشامدی چمچوں اور مخصوص صحافیوں کی مدد سے اپنا کام نکالنے والے یہ لیڈر قوم کو بتانا پسند کرینگے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ جب بھی بیرون ملک دورہ ہوتا ہے اپنے خاندان کے بچوں کو سرکاری خرچ پر دورےکیوں کرواتے ہیں کیا عوام کا ٹیکس ان کی اور ان کے خاندان کی عیاشیوں کیلئے ہے کہ جب چاہا بیرون ملک دورے پر نکل گئے اور بعد میں ایجنڈا طے کردیاکہ ہم نے یہ کرنا اور یہ کردیا –
رون حملے کررہے ہیں اس سے قبل بھی یہی ڈرامہ جاری تھا اور یہ ڈرامہ اب بھی جاری ہے ہاں کل اگر آپ چوروں کیساتھ ملے ہوئے تھے تووہ چور آجڈاکوئوں کاساتھ د ے رہے ہیں خارجہ اور دفاع کے وزارت رکھنے والے حکمرانوں کا یہ حال ہے کہ انہیں امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے ائیرپورٹ پر ریسیو کیا کوئی اعلی عہدیدار انہیں ریسیو کرنے ہی نہیں یا نہ ہی سٹیٹ گیسٹ کے طور پر انہیں بلایا گیا تھا اسی وجہ سے ہوٹل میں رہائش اختیار کی جس کیادائیگی بھی پاکستان کے بھوکے ننگے عوام ہی کرینگے انہی کیساتھ مشیر کے طور پر کام کرنے والے ایک صاحب نے کچھ دن قبل بیان دیا تھا کہ امریکہ بہادرپاکستانی حکمرانوں سے افغانستان سے نکلنے کے بعد تعاون سمیت غداری کے الزام میں گرفتار ہونیوالے ڈاکٹر شکیل کی رہائی چاہتے ہیں جس کامطالبہ بھی کیا گیا لیکن یہ بات چھپا لی گئی اور صحافیوں کے سوال کرنے پر اس پر گول مول جواب دیدیا گیاپہلے سب کچھ غلط تھا اور اب ٹھیک کرنے جارہے کے نام پر کونسل آف یورپ کنونشن کے معاہدے کرنے والے حکمران کیا یہ بتانا پسند کرینگے کہ کیا یہ غداروں کو نکالنے کیلئے راستہ فراہم کرنانہیں ہے-باتیں تو بہت ساری ہیں لیکن کیا یہ آواز بلند کرنا صرف صحافیوں کا کام ہے کیا اس ملک کے عوام شعور نہیں رکھتے جو آئی ایم ایف کے غلام حکمرانوں سے یہ سوال کرے کہ آخر انہیں کس چیز کی سزا دی جارہی ہیں اور یہ حکمران کب تک عوام کیساتھ جھوٹ بولتے رہیں گے – سو موجودہ حالاتمیںیہ اس ملک کے ہر شہری کا فرض ہے کہ اپنی آواز بلند کریں سوال کریں کب تک خاموش رہینگے صرف اس طرح کے پیغامات موبائل فون پر ایک دوسرے کو بھیجنے سے سے کچھ نہیں چلے گا کہ شیر کتے سے زیادہ کھاتا ہے –
—
سرکار کے کھاتے میں امریکہ یاترا کرنے والے حکمرانوں سے کوئی یہ پوچھے کہ ڈو مور کا مطالبہ کرنے والے امریکی کیسے آپ کی مرضی کے بغیر ڈ
BABY KILLERS, Drone attacks
No Comments