Our Announcements

Not Found

Sorry, but you are looking for something that isn't here.

Posts Tagged اپنا پیٹ بھرنے کے علاوہ اور کچھ چاہیئے

ہم دیکھتے ہیں کالم نگار | روبینہ فیصل

 
 
کالم نگار  |  روبینہ فیصل
 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

میکسم گورکی اپنے آفاقی شہرت یافتہ ناول “ماں”میں لکھتا ہے :

“ان لوگوں کو جو ہماری پیٹھ پر سوار ہیںاورجنہوں نے ہماری آنکھیں بند کر رکھی ہیں،ہمیں یہ بتا دینا چاہیئے کہ ہم سب کچھ دیکھ رہے ہیں ۔نہ تو ہم بے وقوف ہیں اور نہ جانورکہ ہمیں اپنا پیٹ بھرنے کے علاوہ اور کچھ چاہیئے ہی نہیں ۔ہم ایسی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں جو انسانوں کے شایانِ شان ہو،ہمیں اپنے دشمنوں پر یہ ثابت کر دینا چاہیئے کہ غلامی کی زندگی جو انہوں نے ہم پر مسلط کر رکھی ہے ،ہمیں ذہنی اعتبار سے انکے برابر بلکہ اونچا کر سکتی ہے۔

اس ناول کے کلاسیکل ہونے کی وجہ ہی یہی ہے کہ یہ ہر زمانے اور ہر ملک کیلئے ہے ۔آج اگر اس میں ہم اپنا چہرہ دیکھنا چاہیں تو باآسانی دیکھ سکتے ہیں ۔ پاکستان یا کسی بھی غریب ملک کے امیرحکمران سمجھتے ہیں کہ عوام گدھے ہیں ،انکے اوپر بوجھ لادو تو بھی احتجاج کیلئے کچھ نہیں بول سکتے حالا نکہ عوام احتجاج کا طریقہ گدھے سے ہی سیکھ لیں تو برا نہیں ۔ جو ضرورت سے زیادہ بوجھ لادے جانے پر اڑ کر ایک جگہ بیٹھ جاتا ہے۔ یہ مجھے یقین ہے کہ وہ دیکھتے اور سمجھتے ضرور ہیں مگر حکمرانوں تک یہ پیغام پہنچانا کہ” ہم دیکھتے ہیں “اس میں شائد وہ ناکام ہیں اسی لئے تو دیدہ دلیری ہے کہ بڑھتی ہی جا رہی ہے ۔

طاقت کرپشن کی طرف لے کر جاتی ہے اور زیادہ طاقت زیادہ کر پشن کی طرف لے کر جاتی ہے ۔ جب انسان کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہوتا تو وہ عقل و دانش اور انصاف کی بات کرتا ہے ۔ جب طاقت آجاتی ہے تو تکبر دماغ میں بھرتا ہے اور انسان اپنے ہر فیصلے ،ہر عمل کو انصاف پر مبنی سمجھتا ہے ۔ پاکستان میں ہر نئے آنے والے حکمران نے ٖغریب عوام کاہمدرد سمجھ کر یا کم از کم سمجھنے کا نعرہ لگا کر حکمرانی کا آغاز کیا ۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ میں حکومت اپنے خاندان اور نسلوں کا پیٹ اور سوئس اکائونٹ بھرنے کیلئے کروں گا ۔ کسی نے یہ کہا کہ دولت کا ارتکاز ہم چند ہاتھوں میں کر دینگے ؟ اور غریبوں پر مفلسی ، جہالت اور بیماری کا ارتکاز کر دینگے ؟ حکمران آمریت کی بیساکھی پکڑ کر آیا یا لو لوگوں کے منہ میں جمہوریت کی چوسنی دے کر آیا ،نعرہ اس نے بڑا اچھا لگایا ۔ اسی لئے تو نعروں پر بہلنے والے عوام جمہوریت کا تختہ الٹنے پر بھی مٹھائیاں بانٹتے اور جمہوریت کے آنے پر بھی دھمال ڈالتے ہیں ۔ کاش لوگ کسی بھی لمحے حکمرانوں کو ، لٹیروں کو یہ پیغام دے سکتے کہ” ہم دیکھ رہے ہیں “۔

پرویز مشرف نے جب اکتوبر۹۹میں اقتدار سنبھالا ، تو عوام جمہوری نمائندوں سے عاجز آچکے تھے ، اس لئے سب نے خوشیوں کے شادیانے بجائے اور مشرف کی سوچ کا نہ صرف استقبال کیا بلکہ اس سے بہت زیادہ امیدیں لگا لی تھیں‘ کیوں نہ امیدیں بندھتیں جب مشرف نے فرمایا” میں نے دیکھا کہ عام نچلی سطح پر جمہوریت کا عدم وجود اور پاکستان کی سیاست پر اثر انداز ہونیوالے تین اشخاص یعنی صدر، وزیرِ اعظم اور آرمی چیف پر موثر اور متوازن روک تھام کا نہ ہونا ،دیر پا اور پائیدار جمہوریت کی راہ میں بڑی رکاوٹ تھی ۔ ان خرابیوں کی اصلاح ضروری تھی ۔دو دفعہ کے آزمائے ہوئے ناکام وزرائے اعظم،نواز شریف اور بے نظیر کو تیسری بار موقع نہیں دینا تھا ،انہوں نے قوم کے ساتھ لوٹ مار ، ڈاکا زنی اور بداعتمادی کا ارتکاب کیا تھا ۔پرانے افریقی آمروں کی طرح اپنی اپنی پارٹیوں کے تاحیات چئیرمین بنتے اور وراثتی سیاست کا موجب تھے” ۔

پھرمذید اپنی کتاب ”  سب سے پہلے پاکستان “میں ایک جگہ فرماتے ہیں۔ ہم نے پاکستان میں ایک چھوٹے مراعات یافتہ طبقے کو حکومت کا رواج ڈال دیا ہے ۔جو کبھی بھی جمہوری نہیں ہوتی ،بلکہ وہ بھی آمرانہ ہوتی ہے ۔عام طور پر اس میں مالدارلوگ ہوتے ہیں اور گذرے ہوئے چند سال سے بڑے چور بھی ۔اور یہ سب جمہوریت کے لبادے میں قبائلی اور جاگیردارانہ  سوچ کیساتھ عوام کے نام پر حکومت کرتے ہیں ۔ مشرف نے ٹھیک لکھا کہ الیکشن جمہوریت کی طرف جانے کیلئے ایک گاڑی جیسا ذریعہ ہے ۔مشرف کی اب تک کی گئی باتوں سے کس کو اختلاف؟ ہم نے جمہوریت کو فقط الیکشن سمجھ لیا ہے اور دو خاندانوں کو اپنے سر پر مسلط کیا ہوا ہے ۔ مشرف کا ذکر اسلئے کہ پاکستانی عوام کی یاداشت بہت کمزور ہے ا سلئے بہت پرانی باتیں یاد کروانے کا فائدہ نہیں ،ورنہ پاکستان کی66 سالہ تاریخ آمروں اور سیاست دانوں کے میٹھے میٹھے نعروں سے ہی تو بھری ہوئی ہے ۔حقیقی جمہوریت کی بات کرنیوالے مشرف نے جس طرح کی جمہوریت پاکستان کو دی سب کی یاداشتوں میں تازہ ہوگی ۔ دو خاندانوں سے نجات دلانے کرپشن سے چھٹکارا ، عوام کی حاکمیت کا نعرہ لگا کر گیارہ سال حکمرانی کی اور انہی کرپٹ،جاگیر دا رانہ خاندانوں کیساتھ NRO کر کے پاکستانی عوام کے منہ پر جوتی ماری او پھر نومبر کی ایمرجنسی کس کو یاد نہیں؟ کرپشن ختم کرنے کو NABکا ادارہ بنایا جو خود کرپشن کے سب ریکارڈ توڑ چکا ۔ نیشنل سیکورٹی کونسل کا وجود کہاں گیا ؟یہ سب جھوٹے وعدے اور کرپشن کی دیدہ دلیری ایسی اینٹی بائیوٹک ہے ، جس نے پاکستان کے جسم میں مزاحمت کی اینٹی باڈیز ری ایکشن کے طور پر بنانی بند کر دی ہیں ۔ ورنہ کلرک کی پوسٹ سے اٹھ کر 1500 ادھار لے کر چھوٹا سا بزنس شروع کرنے والا لینڈ مافیا بن کر پاکستان کا نواں امیر ترین اور باعزت آدمی نہ ہوتا ، جو ہر بندے کو خریدنے کی طاقت رکھتا ہو مہران بنک کیس میں یونس حبیب کا دعوی کہ اسکے ذریعے آرمی نے سیاست دانوں کو خریدا تھااور پھر چاروں طرف خاموشی چھا جائے‘ جن پر الزامات لگیں وہ آپکے حکمران بن جائیں ۔ یہ پہلی دفعہ تو نہیں ہوا سوئس بنک میں اکائونٹ، اور کمیشن لے کر معاہدے کرنیوالا ،جسے پوری قوم ڈاکو اور مسٹر دس پرسنٹ کہتی اسے صدر بنا دیا جاتا ہے ۔ حالیہ الیکشن میں کھلم کھلا دھاندلی ہوتی ہے اور سب اسکے نتائج کو تسلیم کرتے ہیں مشرف کے دور میں حدیبیہ مل کیس ،اسحاق ڈار نواز شریف کیخلاف منی لانڈرنگ کا حلفیہ بیان دیتے اور بعد میں یہ کہہ کر کہ مجھ سے دبائو میں لیا گیا ، جان چھڑاتے اور وہی نواز شریف آپکا وزیرِ اعظم اور وہی اسحاق ڈار آپکا وزیر ِ خزانہ ۔  تھامس جیفرسن نے کہا تھا “جمہوریت اس وقت ختم ہوجاتی جب محنت کرنیوالوں سے چھین کر کچھ نہ کرنے والوں کو نوازا جاتا ہے “اس تعریف کی رُو سے تو پاکستان میں چاہے آمریت ہو یا جمہوریت ،عوام کا انجام تو ایک سا ہی او ر ایسے ممالک کی جمہوریت کارل مارکس کے مطابق “محکوم عوام کو کچھ سالوں بعد یہ منتخب کرنے کی اجازت دی جاتی ہے کہ حکمران طبقے میں سے اب کون انکا استحصال کرے” ۔کرپٹ حکمران سمجھتے کہ ہم دیکھتے نہیں بس انہیں یہ بتا دیا جائے کہ ہم دیکھتے ہیں ۔

 

 

 

ڈیجیٹل فارمیٹ میں اس خبر کو پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

,

No Comments