اور غزل
نیاز مند
سعید قریشی
ڈ یلس ٹیکساس
یوں بھی ھو گا نہ کوئی درد کا چا ر ا ھوگا
شد ت یا س میں کوئی نہ سھارا ھو گا
بڑ ھ گئی ھو گی پریشا نئی خاطر کچھ اور
اس کے احساس کا جب بوجھ اتا ر ا ھو گا
و قت کی دھول نے دھند لا دیا ہو گا اس کو
دل کے آئینے میں جو نقش سنوا ر ا ہو گا
اب تو حالا ت بگڑتے ہی چلے جاتے ہیں
کیسے اے گرد ش ایا م گزارا ہو گا
عھد حاضر تو عد و کا ہے مگر یا د رہے
اس کے بعد آ ۓ گا جو دور ہما ر ا ہو گا
آ گ بھڑ کے گی تو پھر سب ہی جلیں گے اس میں
پھر تو میرا کوئی ہوگا نہ تمہارا ہو گا
ہم سے جو بات بھی کرنے کا روادار نہیں
کس طرح غیر نے شیشے میں اتا ر ا ہو گا
ر ت جو بد لے گی تو بد لے کا مقّدر اپنا
صبح آئے گی تو ساتھ اسکے ستا را ہو گا
حو ر کے روپ میں محبوب کرے گا طا عت
خوب جنت میں یہ اک طرفہ نظا ر ا ہو گا
نا ؤ جب ڈوبتی ہو گی تو سبھی لوگوں نے
ناخد ا اور خدا کو بھی پکارا ہو گا
آ شیا نوں کو پرندے وہی لوٹیں گے جنھیں
سخت طوفان میں پرواز کا یا ر ا ہو گا
بزم میں بیٹھے ہوۓ ہیں اسی امید سے ہم
چشم ساقی کا ادھر کو بھی اشارا ہو گا