۔۔۔۔میں رہ گیا

کر دیا مجھ کو مکاں خود لامکاں میں رہ گیا

میں زمیں پر اور وہ خود آسماں میں رہ گیا

کُن میں اور اُس کے فیٰکون میں ذرا وقفہ نہ تھا

ایسی عُجلت میں بہت کچھ درمیاں میں رہ گیا

گرد اتنی کہکشاؤں کی تھی دورانِ سفر

میں بھی خاکی سا غبارِ کہکشاں میں رہ گیا

قوتِ قطبی ، جدائی اور کشش کا کھیل ہے

یوں خلا یہ اس زمین و آسماں میں رہ گیا

کارہائے بزم ِ ہستی کا تصور کیا کرے

جو اُلجھ کرمذہبوں کی داستاں میں رہ گیا

حالِ دل اقباؔل کیا وہ خاک سمجھیں گے ،ترا

حرفِ مطلب چُھپ کے جب حُسن ِبیاں میں رہ گیا

 

Comments are closed.

(will not be published)