ڈارک ویب، زینب کا قتل … خوفناک انکشافات!
ایسے ہولناک حقائق کہ آپ کی روح کانپ اٹھے اوراس کے تانے بانے ایسے ایسے بارعب لوگوں سے ملتے ہیں کہ پڑھ کر آپ اپنے ملک میں جاری اس دھندے کے پیچھے چھپے کرداروں کا ایک مرتبہ تعین کرنے کا ضرور سوچیں گے۔
زینب قتل کیس کہنے کو اغوا کے بعد زیادتی اور زیادتی کے بعد قتل کی ایک عام سی واردات لگتی ہے، (اور اب قاتل کے پکڑے جانے کا بھی انکشاف ہوا ہے لیکن بات میرے خیال میں اتنی سادہ نہیں اس قتل کے پیچھے اتنے ہولناک حقائق ہیں جسے قطعی طور پر نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔ معاملہ
سیریل کلنگ (Serial Killing)
کا ہو یا ٹارگٹڈ ریپ (Targeted Rape)
کا لیکن یہ طے ہے کہ سکیورٹی اداروں کی اس قتل اور ایسی کئی دیگر وارداتوں سے جڑے حقائق پرپردہ ڈالنے ہی میں عافیت ہے۔۔ جو پردہ اٹھائے گا، اس کا انجام بھیانک ہو گا کیونکہ یہ مافیا بزنس مینوں سے لے کر سیاست دانوں تک پھیلا ہوا ہے۔۔ عام جنسی تشدد اور شہوت سے جڑی واردات میں قاتل کارروائی کرتے ہیں اور قتل کر کے ثبوتوں کو صاف کر نے کے بعد غائب ہو جاتے ہیں لیکن جنسی زیادتی سے جڑے اس ہولناک قتل کے دوران زینب کی دونوں کلائیوں کو چھری سے کاٹا گیا، گلے کو پھندے سے جکڑا گیا، جسم پر بے پناہ تشدد کیا گیا، تیز دھار آلے سے نشانات پہنچائے گئے اور زبان کو نوچا گیا۔ ایسا عام طور پر جنسی زیادتی اور قتل کی وارداتوں میں نہیں ہوتا۔ ایسا کسی اور مقصد کے لیے کیا جاتا ہے اوروہ مقصد ہے بے پناہ پیسے کا حصول۔۔ پولیس حقائق سے پردہ اٹھائے یا نہ اٹھائے۔۔
پیسے سے جڑے جن حقائق سے میں پردہ اٹھانے جا رہا ہوں اس کے لیے آپ کو اپنے دلوں کی دھڑکنوں کو تھامنا ہوگا۔۔ دنیا میں انٹر نیٹ کی ایک ایسی کمیونٹی بھی ہے جسے گوگل (Google) تک سرچ نہیں کر سکتا۔ یہ کمیونٹی (بلکے کمیونٹیاں) دنیا کے مختلف حصوں سے انسانی اعضاء کی خریدو فروخت سمیت بچوں کے ساتھ جنسی فعل (Child Ponography)
اور بچوں پر جنسی تشدد کے بعد ان کے تشدد زدہ اعضاء کی تشہیر سے وابستہ ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کمیونٹی سے جڑے لوگوں کو اپنے اپنے ٹاسک پورے کرنے کے لاکھوں ڈالر ادا کیے جاتے ہیں، اور پیمنٹ کا طریقہ کار اتنا خفیہ ہوتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں یا خفیہ ایجنسیز کو بھنک تک نہیں پڑ سکتی۔ اس کمیونٹی تک ایک عام صارف کی رسائی نہیں ہوتی بلکہ مکمل چھان بین کے بعد دنیا بھر سے سب سے زیادہ قابل اعتماد (Most Trusted)
اور قابل بھروسہ لوگوں کو اس کمیونٹی کا ممبر بنایا جاتا ہے۔۔ ورلڈ وائیڈ ویب (www)
یعنی انٹر نیٹ پر موجود جنسی ہیجان اور انسانی جسمانی اعضاء کی خریدو فروخت کے گورکھ دھندے سے جڑی اس حقیقت کو ڈارک ویب (DarkWeb) یا ڈارک نیٹ کا نام دیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی جریدوں کے
2007ء
کے اعدادو شمار کے مطابق اس دھندے سے وابستہ لوگوں کی تعداد چار اعشاریہ پانچ ملین ہے جو کروڑوں ڈالر کی تجارت سے جڑی ہے۔۔ جنوری
2007ء
سے دسمبر
2017ء
تک اس کاروبار کے صارفین اور ناظرین کی تعداد میں خطرناک حد تک پانچ سو گنا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
قانونی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کی اس دھندے تک واضح رسائی نہ ہونے کی وجہ سے اعداد شمار کا یہ تخمینہ اس سے بھی بڑھ کر ہو سکتا ہے۔ اس دھندے کا سب سے اہم جزو پیڈوفیلیا (Pedophilia)
یا وائلنٹ پورن انڈسٹری ہے جس میں بڑی عمر کے لوگ بچوں یا بچیوں سے جنسی فعل کرتے ہیں یا انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے دکھاتے ہیں۔۔ یہ ڈارک ویب کی سب سے زیادہ منافع پہنچانے والی انڈسٹری ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک کے بچے اور بچیاں ڈارک ویب پر بیچے جانے والے مواد کا آسان ترین ہدف ہیں۔ ان ممالک میں بھارت، بنگلہ دیش، پاکستان، ایران، افغانستان اور نیپال شامل ہیں۔ یہاں پر بھارت میں ہونیوالے رادھا قتل کیس کا حوالہ دینا بہت ضروری ہے۔