زندگی
اک معمہ ہے پر اسرار ہے ایسا کیوں ہے
زندگی جیسے کہ اک بار ہے ایسا کیوں ہے
بات بنتی ہی نہیں راز کہ کھلتا ہی نہیں
نسل آدم ہی سزاوار ہے ایسا کیوں ہے
وہ تو اچھا ہے جو آ یا نہیں اس دنیا میں
او ر جو آیا ہے وہ لاچار ہے ایسا کیوں ہے
مر کہ ہی جانا ہے جنت میں جنھیں جانا ہے
موت کیوں راہ کی د یوا ر ہے ایسا کیوں ہے
درد دل بانٹنے نکلو تو یہی لگتا ہے
جیسے ہر شخص ہی بےزار ہے ایسا کیوں ہے
درس دیتے ہیں محبت کا اگر لوگ تو پھر
ہر کوئی د ر پۓ آ ز ا ر ہے ایسا کیوں ہے
کوئی ایسا ہے فرشتوں کو بھی جو مات کرے
دوسرا سخت گنہگار ہے ایسا کیوں ہے
ہر خو شی پر رہے بیتاب یہ گرنے کے لیے
غم کہ لٹکی ہوی تلوار ہے ایسا کیوں ہے
رات کیوں دن کے تعا قب میں لگی رہتی ہے
پھول کے ساتھ لگا خا ر ہے ایسا کیوں ہے
مر ے اس پیا ر کے بدلے میں جو چھم چھم برسے
ترے طعنو ں کی جو بوچھاڑ ہے ایسا کیوں ہے
حسن کو چا ھیۓ وہ بھی تو کبھی پہل کرے
صرف عاشق ہی طلبگار ہے ایسا کیوں ہے
جس کو کہتی ہیں بڑ ے فخر سے قومیں غیرت
ہم نے بیچی سر بازار ہے ایسا کیوں ہے