Our Announcements

Not Found

Sorry, but you are looking for something that isn't here.

Archive for September 18th, 2016

اکتوبر میں کیا ہونے جارہا ہے

اکتوبر میں کیا ہونے جارہا ہے

 

 

اکتوبر میں کیا ہونے جارہا ہے ، اس حوالے سے تقریباً تمام معاملات فائنل ہوچکے ہیں تاہم اس کا باضابطہ اعلان مرحلہ وار ستمبر کے تیسرے ہفتے سے شروع ہوکر اکتوبر کے پہلے ہفتے تک کئے جانے کا امکان ہے ۔ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ اگلے آرمی چیف کے بارے میں فیصلہ ہوچکا ہے ۔جس کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ اگلے آرمی چیف ہوں گے۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے بارے میں بھی تقریباً فیصلہ ہوچکا ہے ۔
چیف آف آرمی سٹاف سینارٹی کے لحاظ سے پہلے نمبر پر لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات کو آرمی چیف دیکھنے کے خواہش مند ہیں اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے عہدہ پرماضی کی روایات کے پیش نظر، جس پر کئی سالوں سے عملدرآمد نہیں ہورہا ،اسکے مطابق پاک فضائیہ اور پاک بحریہ میں سینارٹی کے لحاظ سے سینئر سروسز چیف کی اس عہدہ پر تعیناتی چاہتے ہیں تاہم حکومتی حلقوں کی جانب سے لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات کو چیف آف آرمی سٹاف بنانے کی بجائے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے عہدہ پر تعیناتی کا عندیہ دیا گیا تاہم اس کا حتمی فیصلہ نوازشریف غیرملکی دورہ کے بعد اکتوبر کے پہلے ہفتے میں کرینگے ۔کیونکہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے عہدہ پر پاک فضائیہ اور پاک بحریہ کے سینئر سربراہ کی تعیناتی کا معاملہ بھی قابل غور ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف کی خواہش ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات کو کوئی عہدہ نہ دیا جائے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے دوبھائی پاک فوج میں سرونگ جرنیل ہیں لیفٹیننٹ جنرل عمر حیات واہ کینٹ کے چیئرمین جبکہ میجر جنرل احمد حیات آئی ایس آئی میں گذشتہ تقریباً پانچ سال سے اہم پوزیشنز پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات کے خاندان کے دیگر پانچ افراد کے علاوہ ان کے والد اور تایا بھی جرنیل تھے جبکہ انکے دادا ، پڑدادا اور نا نا بھی فوج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں ۔ تاہم وزیر اعظم نوازشریف نے ان کو چیئرمین جوائنٹ چیفس اور سٹاف بنانے کا عندیہ اس لئے دیا ہے کہ سینارٹی کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ انہیں اکاموڈیٹ کرکے پاک فوج کوناراض نہیں کرنا چاہتے کیونکہ وزیر اعظم نواز شریف نے موجودہ سینارٹی کے لحاظ سے چوتھے اور لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات کی بطور چیئرمین چوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی تقرری کی صورت میں تیسرے نمبرپر آنیوالے لیفٹیننٹ جنرل قمرجاوید باوجوہ کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے اور ان کا نام موجودہ چیف آف آرمی سٹاف اور وزارت دفاع کی جانب سے وزیر اعظم کونئے چیف آف آرمی سٹاف کیلئے بھجوائے جانیوالے تین رکنی پینل میں شامل ہوگا کیونکہ لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات کی بطور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی تقرری کی سفارش کیساتھ ہی لیفٹیننٹ جنرل باجوہ کا نام سینارٹی کے لحاظ سے ازخود چوتھے کی بجائے تیسرے نمبر پر اور روٹین کے تین رکنی پینل میں آجائے گا جس میں سے کسی ایک کو آرمی چیف بنانا وزیر اعظم کی صوابدید ہے ۔ اگلے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا اعلان اکتوبر میں کیوں ؟ ؂ذرائع کے مطابق وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف چاہتے ہیں کہ وہ نئے چیف آف آرمی سٹاف کا اعلان غیر ملکی دورہ سے واپسی پر اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی جانب سے سعودی عرب کی بنائی ہوئی34 اسلامی ممالک کی فوج کی سربراہی کی پیشکش پر جنرل راحیل شریف کے فیصلہ کے بعد کریں ،جس کی ذرائع کے مطابق فی الحال ڈیڈ لائن 24ستمبر ہے تاہم اس میں فریقین کی باہمی رضا مندی اور حالات و واقعات کی روشنی میں ایک یا چند ہفتوں تک توسیع کو بھی خارج ازمکان قرار نہیں دیا جاسکتا ہے اور جنرل راحیل شریف اس آفر اور مجوزہ ڈرافٹ جو سعودی حکومت کی جانب سے ان کو فراہم کیا گیا ہے اسکو سینئر کمانڈرز کے سامنے رکھ کر یا اس معاملہ کو کورکمانڈرز کانفرنس میں رکھ کر ان کی مشاورت سے ہی کوئی بھی جواب دینے کے خواہش مند ہیں اور اس حوالے سے ستمبر کے آخری ہفتے تک کور کمانڈرز کی کانفرنس بھی متوقع ہے ۔سعودی عرب آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے کیا کام لینا چاہتا ہے ؟ باخبر ذرائع کا دعویٰ ہے کہ سعودی عرب پاک فوج کے سپہ سالار چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کو 34 اسلامی ممالک کی فوج کا سربراہ بنانے کے ساتھ ساتھ ان کے ذریعے سعودی عرب کی دنیا کی اہم ،بڑی، طاقتور اور باقاعدہ پیشہ وارانہ فوج تیار کروانا چاہتا ہے جو وہ چار سال کے اندر کھڑی کریں گے اور مجوزہ معاہدہ کی رو سے وہ مزید تین سال میں اسے ٹرینڈ، آرگنائز اور پرموٹ کریں گے اور اسے باقاعدہ پیشہ وارانہ اورمضبوط سعودی فوج کے طور پر متعارف کروائیں گے ۔ سعودی عرب کی اس پیشکش کے سلسلے میں 28اگست کودو روزہ دورے پر سعودی عرب کے وزیردفاع اور ڈپٹی کراؤن پرنس محمد بن سلمان السعود خود پاکستان آئے اور مجوزہ ڈرافٹ جنرل راحیل شریف کے حوالے کرکے گئے ہیں اس کوقبول کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے ابھی تک چانسز 49% اور 51%نظر آرہے ہیں تاہم اس کا حتمی فیصلہ جنرل راحیل شریف سینئر کمانڈرز کے مشورے سے ہی کریں گے ۔

ذرائع کے مطابق سعودی عرب نے یہ پیشکش جنرل راحیل شریف کو دورہ سعودی عرب کے دوران کی اور ذرائع نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ 34اسلامی ممالک کی فوج کی سربراہی کے حوالے سے مجوزہ ڈرافٹ کی تیاری کے بارے میں قیاس کیا جارہا ہے کہ اس حوالے سے پاکستان کی عسکری قیادت سے پیشگی مشاورت بھی کی گئی ہے۔ سعودی عرب جنرل راحیل شریف کوکیا دے گا ؟ ذرائع کا کہنا ہے کہ سعودی عرب جنرل راحیل شریف کو سعودی عرب کا سب سے بڑا قومی اعزاز کراؤن نیشنلٹی کے ساتھ جنرل راحیل شریف کو پیش کرینگے ۔

جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کیلئے چین کا کیا کردار؟ باخبر حلقو ں کا کہنا ہے کہ چین نے نواز حکومت سے جنر ل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کی درخواست کی جبکہ دوسری جانب نواز حکومت بھی جنرل راحیل شریف کو مدت ملازمت میں توسیع کے خواہش مند ہے اور اس سلسلے میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی جنرل راحیل شریف کوقائل کرنے کی کوشش کی اور چین نے بھی بھرپور کوشش کی، تاہم پاکستانی حکومتی شخصیات یا چین آرمی چیف کو مدت ملازمت میں توسیع پر آمادہ نہ کرسکے ۔ حکومت کیوں جنرل راحیل شریف کو مدت ملازمت میں توسیع دینا چاہتی ہے ؟ ذرائع نے بتایا کہ حکومت کے جنرل راحیل شریف کومدت ملازمت مین توسیع دینے کے پیچھے بہت سارے عوامل کارفرما ہیں ، ایک تو حکومت جنرل راحیل شریف کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے باعث ا ن کی ساکھ کو متاثر کرنے کیلئے انکی توسیع چاہتی ہے جبکہ دوسری جانب جنرل راحیل شریف کی ایک سال کی توسیع کی صورت میں موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر اور کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار بھی یکم اکتوبر2018 ء میں ریٹائرہونے کے بجائے چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے کے لئے سینارٹی کے لحاظ سے موزوں امیدوار ہوسکتے ہیں۔

جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع پر عسکری حلقوں کا ردعمل کیا ؟ عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ عسکری حلقے جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کو سپورٹ نہیں کرتے کیونکہ اس سے نہ صرف سینئر موسٹ اورانتہائی پیشہ وارانہ جرنیلوں کو چیف آف آرمی سٹاف کے عہدہ سنبھالے بغیر ہی ریٹائرہونا پڑے گا بلکہ بعض عسکری حلقوں کا یہ خیال ہے کہ اس سے فوج کے پیشہ وارانہ امور اور ساکھ پر برا اثر پڑنے کے ساتھ ساتھ نوازشریف کا عملاً فوج کے ادارے میں اثر رسوخ بھی بڑھ جانے کے قوی امکانات ہیں ۔ نوازحکومت لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باوجوہ کو ہی کیوں چیف آف آرمی سٹاف بنانا چاہتی ہے ؟ باخبر ذرائع کے مطابق نواز حکومت لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ کو اس لئے چیف آف آرمی سٹاف بنانا چاہتی ہے کیونکہ وہ غیر سیاسی عزائم کے حامل افسر کے طور پرفوجی حلقوں میں مشہور ہیں ، جنرل قمر جاوید باجوہ انتہائی فرض شناس اور پیشہ فوجی افسر ہیں ۔ اپنے غیر سیاسی عزائم کا پرچار نہ صرف اپنے کولیگ کے ساتھ بلکہ وہ کور کمانڈز کانفرنسوں میں بھی کھل کر کرتے رہے ہیں کہ فوج کو صرف اور صرف اپنے پیشہ وارانہ امور پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے اور وہ ہمیشہ فوج کی سیاسی وحکومتی مداخلت کے مخالف رہے ہیں اور اسی وجہ سے ان کا نام ان کور کمانڈرز میں سرفہرست ہے جو سال 2014 ء کے پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں کے دوران کسی فوجی مداخلت یا ٹیک اوور کی سب سے زیادہ مخالفت کی تھی ۔ واضح رہے کہ لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ دھرنوں کے وقت 2014ء میں کور کمانڈر راولپنڈی تھے ۔ وزیر اعظم کی اکتوبرمیں آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا اعلان کی وجہ کیا ؟ وزیر اعظم نواز شریف 16ستمبر کوپاکستان سے امریکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کیلئے روانہ ہونگے اور انکے برطانیہ میں ایک رات قیام کے علاوہ ڈنمارک میں بھی رکنے کا بھی امکان ہے جس کے بعد انکی18ستمبر کو نیویارک روانگی کا امکان ہے،اور21ستمبر کووزیراعظم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

دورہ امریکہ کے علاوہ وزیراعظم کا سویڈن کا دو روزہ دورہ بھی متوقع ہے جس سے واپسی پر ان کے لندن میں قیا م کے دوران 29ستمبر کو ڈاکٹرز کوچیک اپ کروانے کا بھی شیڈول ہے ، ٹیسٹ رپورٹس اور طبی معائنے کی روشنی میں اور ڈاکٹرز کی ہدایات کی روشنی میں وزیراعظم کی پاکستان آمد اکتوبر کے پہلے ہفتے متوقع ہے اور اس وقت تک سمری ان کی خواہش کے مطابق ان کے آفس پہنچ چکی ہوگی۔ جس پر باضابطہ دستخط کرکے وہ نئے آرمی چیف اور نئے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا اعلان کرینگے جبکہ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف چاہتے ہیں کہ جنرل راحیل شریف کے سعودی پیشکش پر فیصلہ سامنے آنے کے بعد وہ نئے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا اعلان و نوٹیفکیشن کریں اور وزیر اعظم نئے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کا نوٹیفکیشن ایک ہی روز میں اکٹھا کریں گے ۔ جنرل راحیل شریف پر کیا دباؤ ؟ جنرل راحیل شریف آج کل سخت دباؤ میں ہیں کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل ہو اورانہوں نے قوم سے جو وعدے کئے ہیں اور جن باتوں کا وہ بار بار اعادہ اور عزم دہراچکے ہیں وہ مختصر وقت میں اس پرپاک فوج اور قوم کے سامنے سرخرو ہوسکیں ۔ وہ کون سے دو آرمی چیف تھے جنہوں نے عوام اور فوج کے دباؤ کے باوجود مارشل لاء سے انکار کردیا ؟ سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی (ریٹائرڈ)اور موجودہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کے پاس کئی ایسے مواقع آئے کہ عوام اور فوج کی جانب سے انکو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں کو گرانے یا ٹیک اوور کرنے کیلئے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تاہم دونوں جرنیلوں نے عوامی اور بعض فوجی حلقوں کے دباؤ اور خواہشات کے برعکس اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی بجاآوری اور اٹھائے گئے حلف کی پاسداری کو ہی مقدم سمجھا ۔ ایک موقع ایسا بھی آیا تھا کہ جب اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے سامنے عزیز ہم وطنو کی تقریر کا ڈرافٹ بھی رکھا گیا جسے انہوں نے سائیڈ پر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارا کام نہیں ہے ہمیں اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی انتہائی فرض شناسی اور پوری ایمانداری ، دیانتداری اور محنت و لگن کیساتھ ادا کرنے پر تمام تر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے ، اسی طرح موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف پر بھی 2014ء کے دھرنوں کے دوران اوردیگر کئی مواقع آئے تاہم انہوں نے بھی ہمیشہ اپنی تمام تر توجہ اپنے پیشہ وارانہ فرائض پر رکھنے کوہی مقدم سمجھا اور بطور پروفیشنل سولجر مقررہ وقت پرریٹائرمنٹ فیصلہ کیا ۔

No Comments

India must remember that Balochistan is not Bangladesh by Professor Ashok Swain

shaheen-2-missile

India must remember that Balochistan is not Bangladesh

Professor Ashok Swain

Professor of Peace and Conflict Research at Uppsala University, Sweden.

Following Prime Minister Modi’s comments about Balochistan in his independence day speech, Ashok Swain warns that open support for Baloch separatists will not solve the Kashmir conflict. What is more, he writes that by threatening its neighbour’s territorial integrity India risks alienating key allies, and in the worst case scenario intervention could result in a nuclear conflict which would threaten the lives and livelihoods of millions.

India’s Prime Minister Narendra Modi in his Independence Day Speech on 15 August 2016 raised the issue of Pakistan’s human rights violations in Balochistan. This has brought a new excitement in New Delhi, particularly among the right wing commentators as if India has finally found a solution to the Kashmir issue.

Since the death of a charismatic militant Burhan Waniin the hands of the security agencies on 8 July 2016, Kashmir is witnessing unprecedented violent protest. Modi and his advisors hope that Kashmir unrest will come to an end if India starts spreading the fire in Balochistan. If Modi and his advisors really believe that the Balochistan threat will dissuade Pakistani agencies to stay out of Kashmir and the contested state will be peaceful forever, they are living in a cloud-cuckoo land. History shows that Pakistani military establishment does not succumb to Indian threats. Instead, it uses this threat to accumulate more power for itself. India’s direct support to the East Pakistan liberation movement, which resulted in the creation of Bangladesh, did not succeed in changing the perception of Pakistani agencies. It only exacerbated their paranoia towards India further.

In the last decade, while Western attention has been mostly on the Taliban, the separatist struggle is turning quite violent in this scarcely populated but mineral-rich province in the south west of Pakistan. The Baloch have waged two major violent ‘freedom’ struggles against the state: an uprising from 1973 to 1977, which was crushed by the Pakistani Army using brute force. The second ongoing struggle started in 2005.

It is no secret that India has been supporting the separatists in Balochistan in their fight again Pakistani military without openly admitting it. Baloch activists have repeatedly admitted of receiving India’s ‘moral’ support and a representative of Balochistan Liberation Organization (BLO) has been living in New Delhi since 2009. Pakistan has been regularly accusing India for using its consulates in Jalalabad and Kandahar to fund, train and arm Baloch militants. A decade back, senior officials of Pakistan had even alleged that 600 Baloch tribals were being trained by India’s Research and Analysis Wing (RAW) in Afghanistan to handle explosives, engineer bomb blasts, and use sophisticated weapons.

Pakistan has failed to provide much proof about Indian involvement, however, according to 2010 WikiLeaks cables, US and British intelligencecautiously agrees with the Pakistani accusations. Last year, Pakistan had handed over a dossier to the UN Secretary General containing ‘evidence’ of Indian support to violence in Balochistan. In March this year, Pakistan claimed to arrest an alleged RAW operative from Balochistan. India has been always denied these accusations, but has continued to remain engaged unofficially. However, by openly committing India to Balochistan’s cause in his speech, Modi is likely to expose India’s geo-strategic limitations without gaining any additional advantage, and there is a lot to lose.

It is important to keep in mind that the Balochistan issue is not a straightforward one for India to directly engage in, as was the case with East Pakistan. India does not share a common border with Balochistan and is therefore dependent upon Afghanistan to provide more support to Baloch separatists. This is not as easy as some hawks in India tend to believe, especially as India is struggling to get enough security cover even to protect its own assets in a fast-deteriorating environment in Afghanistan.

India’s expanded engagement in Balochistan might also bring Iran on Pakistan’s side because Baloch nationalists have not only pitched themselves against Pakistan but against Iran as well. Balochs form a majority in Iran’s Sistan and Baluchestan provinces and, like the Kurds, they are Sunni Muslims. It is not hard to imagine an Iran-Pakistan axis developing rapidly to prevent Baloch aspirations for independence. So getting bogged down in Balochistan risks turning Iran to an enemy of India.

When India went to war with Pakistan over Bangladesh in 1971 it had the blanket support of the Soviet Union, one of the two superpowers in the Cold War. If India picks a fight over Balochistan, Pakistanwill receive support from China whose $46 billion USD CPEC investment in the region is at stake, and it is unlikely that any global or regional power will come out openly on India’s side. Both its old friend Russia, and new ally the USA have tried their best to stay out of the Balochistan imbroglio to date. There is no reason to expect that they will change their stance now.

Not only is Balochistan not East Pakistan, the Pakistani Military has moved on since the early 1970s. In 1971 their most prized possessions were the Patton tanks, but today it is their tactical nuclear weapons. After the country split, Pakistan did not just sulk and accept Indian domination, it decided to acquire a large nuclear arsenal by hook or crook. Unlike India, Pakistan has always been very clear about its purpose in acquiring nuclear weapons: to defend itself against Indian aggression. And unlike India, Pakistan also refuses to commit to a ‘no first use’ of their weapons.

Based on the amount of fissile material Pakistan has produced, it is estimated to have 110-130 nuclear warheads compared to India’s 100-120. Both now possess ballistic missiles, cruise missiles and sea-based nuclear delivery systems. Most importantly, Pakistan’s recent deployment of tactical nuclear weapons for its artillery arsenal has taken away any advantage India had previously in the case of a conventional war. This seriously limits India’s manoeuvrability to intervene militarily in Pakistani territory, whether to retaliate against any terror group or support any ‘separatist struggle’.

Provoking Pakistan to an armed conflict now is like playing with fire. If India threatens the territorial integrity of Pakistan as it did in 1971 there is a real possibility of that the Pakistani military will retaliate with its prized weapons. It has the capacity to launch a nuclear strike against India within 8 seconds and could strike Delhi in five minutes.

Even the Indian policy of massive retaliation against the first use would not reduce the ability Pakistani nuclear missiles have to reach several Indian cities in minutes. Even a limited nuclear confrontation could therefore potentially kill millions in India. So unless Narendra Modi is prepared to sacrifice half of his country’s population to win against his nuclear-armed adversary, he should tread carefully. Pakistan understands well that India cannot openly engage in Balochistan conflict as it did in the case of Bangladesh. It is too much of a risk for India to gamble on. A self-assured Pakistan has already called Modi’s bluff, and is even using Modi’s speech to blame India for the domestic insurgency that it has created in Kashmir.

So contrary to the claim of certain Indian commentators, Modi’s bravado from the Red Fort on Balochistan will not deter Pakistani meddling in Kashmir now or in the future. Instead, it threatens to embolden Pakistan further in its desire to maintain its campaign and retaliate in India’s other soft spots like Punjab and Assam.

This article gives the views of the author, and not the position of the South Asia @ LSE blog,

No Comments